اسلامی تعاون تنظیم کا اعلان استنبول

375

امریکی صدر ٹرمپ کی یہود نوازی اور بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کی شرپسندی کے خلاف گزشتہ بدھ کو ترکی کے شہر استنبول میں 57مسلم ممالک کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) کا سربراہ اجلاس ہوا جس میں مسلم ممالک نے بیت المقدس کو فلسطینی دار الحکومت قرار دے دیا ۔ اس اعلان کے اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور ممکن ہے کہ اس کو محض ایک اعلان سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے ۔ اجلاس میں شریک پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مظاہروں اور اعلامیے سے کچھ نہیں ہو گا ، متحد ہو کر موثر اقدامات کرنے ہوں گے ۔ لیکن وہ اقدامات کیا ہوں گے ، اس پر کانفرنس میں کوئی فیصلہ ہی نہیں ہوا ۔ کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ اسرائیل یا امریکا سے تجارتی تعلقات پر پابندی کا اعلان ہو جاتا ۔ لیکن اسی دن کی خبر ہے کہ اسرائیل اور ترکی میں18.6 ملین یورو(ڈھائی ارب روپے) کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ترکی کی کمپنی اسرائیل کو بسیں فراہم کرے گی ۔ بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت بنانے کے اعلان کے خلاف بلا شبہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سب سے زیادہ گرم جوش اور متحرک ہیں لیکن اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تجارتی و سفارتی تعلقات او آئی سی کو نقصان پہنچائیں گے ۔ مسلم ممالک میں اتنا دم خم تو نہیں ہے کہ دہشت گرد ملک امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے جائیں لیکن امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کیا جا سکتا ہے ۔ مسلم ممالک کے حکمران یہ کام نہ کریں تو مسلمانوں کو از خود یہ کام کر ڈالنا چاہیے ۔ جب برطانیہ ایک بڑی طاقت تھی اس وقت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’فرہنگ کی جان پنجۂ یہود میں ہے ‘‘ ۔ اب امریکا نے برطانیہ کی جگہ لے لی ہے لیکن پنجۂ یہود نے اس کی گردن بھی دبوچ رکھی ہے اور یہود نہ صرف امریکی ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں بلکہ ہر امریکی حکمران اقتدار کے لیے یہود کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔ امریکا کو اسرائیل کی پشت پناہی سے روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اس کی مصنوعات اور مال تجارت کا بائیکاٹ کر کے اسے اقتصادی زک پہنچائی جائے ۔ لیکن کیا اس پر عمل ہو سکے گا؟ خود پاکستان امریکی امداد کا محتاج ہے ، دوسرے ممالک کا تو ذکر ہی کیا۔کتنے ہی مسلم ممالک مسلمانوں ہی کو مارنے کے لیے امریکی اسلحہ خرید رہے ہیں ۔ گزشتہ بدھ ہی کو عرب اتحاد کی طرف سے یمن پر بمباری ہوئی ہے جس میں39 مسلمان جاں بحق ہوئے ہیں ‘خواہ وہ حوثی ہوں یا یمن حکومت کے حامی جو جیل میں تھے ۔ مسلم ملک شام پر امریکی اور روسی ٹوٹے پڑ رہے ہیں ، ایران بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور مرنے والے صرف اور صرف مسلمان ہیں ۔ کیا عرب اتحاد کی طرف سے اسرائیل پر بمباری نہیں ہو سکتی؟ جہاں تک مسلم ممالک کے متحد ہونے کی بات ہے تو عالم اسلام میں محترم سمجھے جانے والے ملک سعودی عرب کے حکمران یا ولی عہد میں سے کسی نے اسلامی تعاون تنظیم کے مذکورہ اجلاس میں شرکت کی زحمت گوارہ نہیں کی بس اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے ایک نرم سا بیان جاری کر دیا کہ ’’فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں گے ‘‘۔ اسی سے اسلامی اتحاد کا پول کھل جاتا ہے ۔ فلسطین میں حماس اسرائیل کے خلاف جہاد کر رہی ہے اور اسی کو ’’کسی‘‘ مفتی اعظم نے دہشت گرد قرار دے دیا ۔ اسرائیل کو دہشت گرد قرار دینے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ امریکا ناراض ہو جائے گا ۔ جمعرات کو امریکی اتحاد نے شام کے شہر دیر الزور پر بمباری کی جس سے 23 افراد جاں بحق ہو گئے ۔ یاد رہے کہ امریکی اتحاد میں کئی مسلم ممالک شریک ہیں جو شامی مسلمانوں کے قتل کے ذمے دار ہیں ۔ امریکی اتحاد اسرائیل کو لگام دینے پر تیار نہیں ہے ۔ سعودی ذرائع ابلاغ سے مسلسل ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ سعودی حکومت اور اسرائیل کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل نے ایک بار پھر سعودی ولی عہد کو اسرائیل کے دورے کی دعوت دی ہے ۔ استنبول اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یروشلم کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو رکن ممالک اس معاملے کو اقوا متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر جائیں گے ‘‘۔ اس پر صرف ایک سوال اُٹھتا ہے کہ ’’ پھر کیا ہو گا‘‘؟ سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ نے مسلم ممالک کا کون سا مسئلہ حل کرا دیا ۔ سلامتی کونسل نے تو پہلے ہی بیت المقدس کو متنازع علاقہ قرار دے رکھا ہے جس طرح کشمیر کو ۔ اس کے بعد سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ منہ لپیٹ کر کہیں جا سوئی ۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اقوام متحدہ ہی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ امن عمل کی قیادت سنبھالے اور اس مقصد کے لیے نیا طریقہ وضع کرے ۔ کیا مسلم ممالک کے سربراہوں کو اب تک یہ یقین نہیں آیا کہ مسلم ممالک میں تنازعات کی ذمے داری اقوام متحدہ پر بھی عاید ہوتی ہے ۔ طاقتور ممالک اقوام متحدہ سے منظوری لیے بغیر ہی کسی مسلم ملک پر حملہ آور ہو جاتے ہیں کہ اجازت بعد میں لی جاتی رہے گی ۔ کانفرنس میں مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دار الحکومت قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں یہودیوں کو بسا رہا ہے ، ان مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ۔ یہودی دہشت گرد صرف فلسطین تک محدود نہیں رہیں گے ، ان کے عزائم پوری دنیا پر قبضہ کرنے کے ہیں اور عیسائی دنیا پوری طرح ان کی معاون ہے ۔