ڈاکٹر نوشاد عالم
بعض حضرات کو یہ مغالطہ ہوگیا ہے کہ سکندر مقدونی ہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن شریف کے سورۂ کہف میں کیا گیا ہے، یہ قول بالاتفاق جمہور علما سلف وخلف قطعاً باطل ہے، اس لیے کہ قرآن شریف کی تصریحات کے مطابق ذوالقرنین صاحبِ ایمان اور مرد صالح بادشاہ تھا جب کہ سکندر مقدونی مشرک اور جابر بادشاہ گزرا ہے، جس کے شرک وظلم کی صحیح تاریخ خود اس کے بعض امرائے دربار نے بھی مرتب کی ہے اور تمام معاصرانہ شہادتیں بھی اس کے بت پرست اور جابر وظالم ہونے پر متفق ہیں۔
امام بخاریؒ نے کتاب ’’احادیث الانبیاء‘‘ میں ذوالقرنین کے واقعہ کو ابراہیمؑ کے تذکرہ سے قبل نقل کیا ہے اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں:
’’مصنف نے ذوالقرنین کے واقعہ کو ابراہیم علیہ السلام کے تذکرہ سے قبل اس لیے بیان کیا ہے کہ وہ اس شخص کے قول کو کمزور کرنا چاہتے ہیں جو سکندر یونانی کو ذوالقرنین کہتا ہے۔‘‘ (فتح الباری ج 6 ص294 )
حافظ ابن حجرؒ نے اپنی جانب سے تین وجوہ فرق بیان کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ سکندر یونانی کسی طرح بھی قرآن شریف میں مذکور ذوالقرنین نہیں ہوسکتا ہے، انھوں نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ جن حضرات نے سکندر مقدونی کو ذوالقرنین کہا ہے غالباً ان کو اس روایت سے مغالطہ ہوا ہے، جو طبری نے اپنی تفسیر میں اور محمد بن ربیع جیزی نے ’’کتاب الصحابہ‘‘ میں نقل کی ہے اور جس میں اس کو رومی اور بانی اسکندریہ کہا گیا ہے، مگر یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے۔ (فتح الباری) حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ ذوالقرنین کے نام کی تعیین سے متعلق مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اسحق بن بشیر نے بروایت سعید بن بشیر قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ذوالقرنین کا نام سکندر تھا، اور یہ سام بن نوح علیہ السلام کی نسل سے تھا، لیکن بعض لوگ اسکندر بن فیلپس (مقدونی) کو بھی ذوالقرنین کہنے لگے ہیں، جو رومی اور بانی اسکندریہ ہے، مگر واضح رہے کہ یہ دوسرا ذوالقرنین پہلے سے بہت زمانہ بعد پیدا ہوا ہے؛ کیوں کہ سکندر مقدونی مسیح علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال قبل ہوا ہے اور مشہور فلسفی اور ارسطاطالیس اس کا وزیر تھا اور یہ ہی وہ بادشاہ ہے جس نے دارا بن دارا کو قتل کیا اور فارس کے بادشاہ کو ذلیل کرکے ان کے ملک پر قبضہ کرلیا، ہم نے یہ تنبیہ اس لیے کردی کہ بہت سے آدمی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی شخصیت ہیں اور یہ اعتقاد کربیٹھے ہیں کہ قرآن شریف میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے، وہ یہی سکندر مقدونی ہے، جس کا وزیر ارسطاطالیس فلسفی تھا اور اس اعتقاد کی بدولت بہت بڑی غلطی اور بہت زیادہ خرابی پیدا ہوجاتی ہے؛ اس لیے کہ ذوالقرنین اوّل مسلمان اور عادل بادشاہ تھا اور اس کے وزیر خضرعلیہ السلام تھے اور دوسرا (مقدونی) مشرک تھا اور اس کا وزیر فلسفی تھا اور ان دونوں کے درمیان تقریباً ہزار سال سے بھی زیادہ کا فصل ہے۔
پس کہاں یہ (مقدونی) اور کہاں (وہ عربی سامی) ان دونوں کے درمیان اس درجہ امتیازات ہیں کہ ماسوا غبی اور حقائق سے نا آشنا شخص کے دوسرا کوئی شخص ان دونوں کو ایک کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (البدایہ والنہایہ ج2 ص 102-105)
امام رازیؒ نے اگرچہ سکندر مقدونی کو ذوالقرنین کا لقب دیا ہے بایں ہمہ ان کو بھی یہ اقرار ہے:
’’ذوالقرنین نبی تھے اور سکندرمقدونی کافر تھا، اس کا معلم ارسطاطالیس تھا، وہ اس کے حکم کی تابعداری کرتا تھا، وہ بلاشبہ کافر تھا۔‘‘
حافظ ابن حجر نے اس مغالطے کی وجہ یہ نقل کی ہے کہ چوں کہ قرآن شریف میں مذکورہ ذوالقرنین مقتدا ہے اور وہ وسیع حکومت کا مالک رہا ہے، اور سکندریونانی بھی وسیع حکومت حکمراں رہا ہے، اس لیے اس کو بھی ذوالقرنین کہنے لگے، اس لیے کہ وہ دو مملکت روم اور فارس کا بادشاہ ہوگیا تھا اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے محمد بن اسحق نے اپنی سیرت میں ذوالقرنین کا نام سکندر نقل کردیا ہے اور چونکہ اس کی سیرت بہت مشہور ومقبول ہے؛ اس لیے یہ نام بھی شہرت پاگیا اور ابن کثیرؒ کا خیال یہ ہے کہ چونکہ اسحق بن بشر کی روایت میں قرآن میں مذکورہ ذوالقرنین کا نام بھی سکندر بتایاگیا ہے، اس لیے غلطی اور نادانی سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔
غرض حافظ حدیث شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن عبدالبر، زہیر بن بکّار، ابن حجر، ابن کثیر، علامہ عینی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے محققین نے اس مغالطہ کی پوری طرح تردید کردی اور حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین کے جو محاسن ومناقب بیان کیے ہیں ان کے پیش نظر ایک بت پرست اور جابر وظالم شخص کو ان کا مصداق بنانا فاش غلطی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ وسعت حکومت اور زبردست سطوت وصولت کے لحاظ سے جس طرح بعض حضرات نے سکندر مقدونی کو ذوالقرنین کا لقب دے دیا ہے، اسی طرح یمن کے بعض تبابعہ کو بھی اہل عرب وسعت حکومت کی بنا پر ذوالقرنین کہتے آئے ہیں، مثلاً ابوکرب تبع نے اپنے دادا کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: ’’میرا دادا ذوالقرنین (امراء القیس) مسلمان تھا اور ایسا پرشوکت بادشاہ تھا کہ بہت سے بادشاہ اس کے تابع فرماں اور اس کے سامنے پست تھے۔‘‘
عرب کے مشہور شعراء امراء القیس، اوس بن حجر اور طرفہ بن عبدہ وغیرہ کے کلام میں بھی حمیری بادشاہوں کو ذوالقرنین کہا گیا ہے۔
مگر یہ سب مسطورہ بالاوجہ کی بنیاد پر ہی ذوالقرنین کہلاتے رہے ہیں اور قرآن شریف میں مذکورہ ذوالقرنین میں سے کوئی نہیں ہے۔
چنانچہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اس حقیقت کو بخوبی واضح کریا ہے، فرماتے ہیں: ’’اور راجح یہ ہے کہ ذوالقرنین (مذکور فی القرآن) نہ یمن کے بادشاہوں میں سے تھا اور نہ شاہان عجم میں سے کیقباد ذوالقرنین تھا اور نہ سکندربن فیلفوس (مقدونی) ہی ذوالقرنین تھا؛ بل کہ وہ ان سب سے جدا ایک نیک بادشاہوں میں سے تھا، جن کا نسب قدیم سامی عرب تک پہنچتا ہے، ناسخ التواریخ کے مصنف نے ایسا ہی کہا ہے۔
نام کی طرح اس کے لقب ’’ذوالقرنین‘‘ کے متعلق بھی درج ذیل متعدد احتمالات ہیں:
1۔ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ وہ روم وفارس دومملکتوں کا مالک تھا اور قرن جس کے معنی ’’سینگ‘‘ کے ہیں بطور استعارہ کے طاقت وحکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی دوحکومتوں کا والی اور مالک، یہ رائے اہل کتاب کی جانب منسوب ہے اور بعض مفسرین کا رجحان بھی اسی جانب ہے۔
2۔وہ فتوحات کرتا ہوا اقصائے مشرق ومغرب تک پہنچا اور دونوں جہات میں بہت سے ممالک پر قابض ومسلط ہوا، یہ زہری کا قول ہے۔
3۔وہب بن منبہؒ کی رائے یہ ہے کہ ذوالقرنین کے سر میں دونوں جانب سینگ کے مشابہ تانبے کے سے غدود ابھرے ہوئے تھے۔
4۔حسن بصریؒ کی رائے ہے کہ اس کی زلفیں دراز تھیں اور وہ ہمیشہ اپنے بالوں کو دو حصے کرتا اور ان کی پٹیاں گوندھ کر دونوں کاندھوں پر ڈالے رکھتا تھا، ان دونوں کو ’’قرن‘‘ سے تشبیہ دے کر اس کو یہ لقب دیاگیا۔
5۔ سیدنا علیؓ کی جانب منسوب ہے کہ ’’ذوالقرنین‘‘ ایک جابر بادشاہ کو یا اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، بادشاہ یا قوم نے غضبناک ہوکر اس کے سرکے ایک جانب ایسی سخت چوٹ لگائی کہ وہ مرگیا، اس کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر پھر تبلیغ کا فرض انجام دیا،اس مرتبہ دوسری جانب چوٹ مارکرقوم نے اس کو شہید کردیا، اس ضرب سے اس کے سرپر جو نشان پڑگئے تھے، اس وجہ سے اس کو یہ لقب دیاگیا۔
6۔وہ نجیب الطرفین تھا اس لیے والدین کی نجابت کو قرنین سے تشبیہ دی گئی اور ’’ذوالقرنین‘‘ لقب ہوا۔
7۔اس نے اس قدر طویل عمر پائی کہ انسانی دنیا کے دو قرن (صدیوں) زندہ رہا۔
8۔وہ جب جنگ کرتا تھا تو بیک وقت دونوں ہاتھوں سے ہتھیار چلاتا؛ بلکہ دونوں رکابوں سے بھی ٹھوکر لگاتا تھا۔
9۔اس نے زمین کی تاریکی اور روشنی دونوں حصوں کی سیاحت کی۔
10۔ذوالقرنین ظاہر وباطن دونوں علوم کا حامل تھا۔ (فتح الباری ج6 وتاریخ ابن کثیر ج2، ودائرۃ المعارف بستانی ج8 ص 114)