اس سال یعنی 2017میں پی پی پی کی گولڈن جوبلی بڑے دھوم دھام سے منائی گئی ۔نومبر 1967 میں پیپلز پارٹی کا لاہور میں قیام عمل میں آیا تھا ،اور اس کے ٹھیک چار سال بعد دسمبر 1971میں پاکستان ٹوٹ گیا ۔ان چار برسوں میں پیپلز پارٹی کو کیا کرنا چاہیے تھا اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیا اس کے اوپر مختلف آراء ہو سکتی ہیں لیکن جب سقوط ڈھاکا کا ذکر ہو گا تو پی پی پی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ایوب خان کی دس برس کی آمریت نے ملک کو جو نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ سیاسی پابندیوں کی وجہ سے کوئی مخلص قیادت ابھر کر سامنے نہیں آسکی ملک میں جو سیاسی پارٹیاں تھیں انھوں نے متحد ہو کر ایوبی آمریت کے خلاف مہم چلائی ۔ایوب خان کے خلاف مغربی پاکستان میں جو نفرت پائی جاتی تھی اس سے کہیں زیادہ نفرت مشرقی پاکستان کے عوام میں تھی ۔ایوب خان کے خلاف نفرت کی وجوہ میں سب سے اہم وجہ وہ معاہدہ تاشقند تھا جس سے عوام میں تاثر یہ قائم ہوا کہ ہم میدان جنگ میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار گئے ۔پاکستان کے عوام کو یہ امید تھی کہ ہم بھارت کے مقابلے میں ایک بہتر پوزیشن میں ہیں اس لیے تاشقند مذاکرات میں مسئلہ کشمیرکے حوالے کوئی اہم پیشرفت ہو سکتی ہے ۔لیکن جب مذاکرات کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ دونوں ممالک کی فوجیں اپنی اپنی سابقہ سرحدوں پر واپس چلی جائیں تو پاکستان کے پاس تو بھارت کا بہت زیادہ حصہ قبضہ میں آیا ہوا تھا ۔پاکستانی عوام نے جب یہ دیکھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تو پورے ملک میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی اور ایوب خان جو 1965کی جنگ کے ہیرو بن گئے تھے ایک دن میں وہ ہیرو سے زیرو بن گئے۔ کہتے کہ ہیں پورے بھارت میں تاشقند مذاکرات سے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا اسی خوشی سے ہارٹ اٹیک ہوگیا، وہ اس خوشی کی تاب نہ لاسکا ۔
ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور ایوبی کابینہ کے اہم وزیروں میں سے تھے ان کے پاس وزارت خارجہ کا اہم منصب تھا مذاکرات میں وہ بھی شریک تھے مگر وہ مزاکرات کی پیشرفت اور اس کے نتیجے سے خوش نہیں تھے۔ مذاکرات کے بعد جو گروپ فوٹو اخبارات میں شائع ہوا اس میں بھٹو کی باڈی لنگویج صاف اعلان کررہی تھی کہ اس مذاکرات میں ایوب خان نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے اور اس میں پوری طرح مشاورت سے کام نہیں لیا گیا۔ بھٹو صاحب ایک ذہین اور چالاک آدمی تھے انہوں نے یہ بھانپ لیا کہ اس مذاکرات سے پاکستانی عوام مطمئن نہیں ہوں گے اور ایوب خان عوام کی نظروں میں گر جائیں گے تو انہوں نے تاشقند مذاکرات کا بہانہ بنا کر ایوب خان کی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرلی ۔پاکستان کے عوام کو اور بالخصوص مشرقی پاکستان کے عوام کو فاطمہ جناح کی حکومتی ناجائز ہتھکنڈوں کی وجہ سے شکست کا بے حد رنج تھا لیکن 65کی جنگ میں فتح کی وجہ سے یہ رنج ختم ہو گیا تھا اور پاکستانی عوام نے ایوب خان کو بے ایمانی سے جیت جانے کے عمل کو ایک طرح سے معاف کردیا تھا لیکن تاشقند معاہدہ میں کمزوری کا مظاہرہ کر کے ایوب خان نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی، بھلے یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے لیکن عوام خوش رہتے۔ پاکستانی عوام کو جیتی ہوئی جنگ مذاکرات میں ہار جانے سے جو زخم لگا تھا اس کے ساتھ ہی فاطمہ جناح کی شکست کا زخم بھی پھر سے ہرا ہو گیا ۔اور وجہ سے ایوب خان کے خلاف نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔
بھٹو نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایوب خان سے علیحدگی کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اس وقت بھٹو صاحب کی پوزیشن سیاسی اعتبار سے پورے ملک میں نمبر 1پر تھی، حالاں کہ 1964کے بی ڈی انتخاب میں ایوب خان کو دھاندلی کے ذریعے سے فتح دلوانے میں بھٹو کا اہم کردار تھا بلکہ سارا کارنامہ ان ہی کے کھاتے میں جاتا ہے ۔لیکن پاکستانیوں کی ایوب خان کے خلاف نفرت اتنی شدید تھی کہ اس نے بھٹو کے سابقہ کردار کو ایک طرح سے معاف کرتے ہوئے ان سے اپنا مستقبل وابستہ کرلیا ۔بھٹو صاحب نے ایک طرف عوام میں اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کی تو دوسری طرف پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران سے دوستی کے رشتوں کو مضبوط کیا ۔بالخصوص جنرل یحیےٰ خان سے پکی یاری قائم کرلی ایوب خان کی روز بروز گرتی ہوئی سیاسی پوزیشن کی وجہ سے اپوزیشن کو بھرپور مہم چلانے کا موقع مل گیا ۔14فروری 1968کو جو ملک گیر ہڑتال ہوئی ایسی ہڑتال نہ پہلے کبھی ہوئی تھی اور نہ آئندہ ہو سکے گی ،یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا یہ ہڑتال مغربی اور مشرقی پاکستان میں یکساں کامیاب ہوئی تھی اس وقت پوری قوم متحد تھی ۔ ا یوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد بھٹو صاحب کو یہ موقع حاصل تھا کہ وہ مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں صوبوں میں اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنالیتے لیکن یہ تاریخ کا ایک اہم سوال ہے جس کا پیپلز پارٹی آج تک ٹھیک سے جواب نہ دے سکی کہ وہ کیا وجوہ تھیں جن کی بنا پر بھٹو نے مشرقی پاکستان میں پی پی پی کی تنظیم کیوں نہ قائم کی ۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ جب ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلائی اور اس میں وہ اقتدار سیاسی جماعتوں کو منتقل کرنے پر تیار ہو گئے تھے تو بھٹو نے کس کے اشارے پر اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جب کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں گول میز کانفرنس میں شرکت پر آمادہ تھیں۔ دوسری طرف ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ بالخصوص جنر ل یحیےٰ خان جو جنرل موسیٰ کے بعد فوج کے سربراہ بنائے گئے تھے ،وہ بھی سیاستدانوں کو اقتدار منتقل کرنے کے حامی نہیں تھے ۔ملک کی دیگر دینی اور سیاسی جماعتیں تو سیاسی جدوجہد کررہی تھیں جبکہ پی پی پی عوامی لیگ ایک دوسری لائن پر چل رہی تھیں اور یہ لائن کسی اور کی بنائی ہوئی تھی ۔مشرقی پاکستان کی جدائی کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو 1966سے 1969 یعنی معاہدہ تاشقند سے ایوب خان کے استعفے تک کے سیاسی عوامل اور تہہ در تہہ پیچیدگیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے ۔اگر بھٹوصاحب مغربی پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرتے اور دیگر سیاست دانوں کے ساتھ مل کر گول میز کانفرنس کو کامیاب بناتے تو ممکن ہے کہ ہم سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے سے بچ جاتے ۔ایک اور اہم بات یہ کہ 1970کے انتخابات آئین سازی کے لیے تھے نہ کہ حکومت سازی کے لیے اور پھر یہ کہ ان انتخابات میں صوبائی اورلسانی بنیادوں پر مہم چلا کر پاکستان کے نظریاتی تشخص کو شدید طریقے پر مجروح کیا گیا ۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔بہرحال چوں کہ یہ سال پی پی پی کی سیاست کا پچاسواں سال ہے اس لیے اس مرحلے پر رک کر پی پی پی کے رہنماؤں کو یہ جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ ملکی اور بین الاقوام سطح پر سانحہ مشرقی پاکستان کے بہت سارے اسباب میں پی پی پی کو ایک اہم سبب کیوں سمجھا جاتا ہے ۔