بہاریں جاڑے کی

438

بابا الف کے قلم سے
صاحبو! کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی تھی جتنی ہمیں انگریزی آتی ہے لیکن اس برس تو سردی کے تیور ہی اور ہیں۔ آغاز ہی میں اتنی سردی۔ ٹھنڈا ہاتھ ملانا بھی دہشت گردی کے زمرے میں آنے لگا ہے۔ غلطی سے پنکھے کا بٹن دب جائے تو سب ایسے دیکھتے ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کو۔ شام اس وقت جب کہ ہم کالم لکھنے بیٹھے ہیں باہر سرد ہوائیں چل رہی ہیں۔ الفاظ قلم تک آتے آتے جم رہے ہیں۔ انگلیاں ایسے ٹھٹھر گئی ہیں کہ کچھ بھی گرفت میں نہیں آرہا۔ ایسے میں دل بس یہی چاہتا ہے رضائیاں دو ہوں اور۔۔۔ وہ تمام سردی کی سوغاتیں جو کبھی سردی میں معمول ہوا کرتی تھیں۔ خوانچے والے سر پر رکھے جنہیں بیچتے پھرتے تھے۔
رکھ خوانچے کو سر پر پیکار یوں پکارا
بادام بھونا چابو اور کُرکُرا چھوہارا
جاڑا لگے تو اس کا کرتا ہوں میں اجارا
جس کا کلیجہ یارو سردی نے ہو دے مارا
نو دام کے وہ مجھ سے لے جائے تل کے لڈو
اب تو یہ چیزیں خیال وخواب ہوئیں۔ تل کے لڈو دیکھے عرصہ بیت گیا۔ خیال رہے تل کے لڈو سے مراد وہ شے نہیں ہے جو بسوں میں دس روپے کے دو بکتے ہیں۔ نہ جانے کس میٹھے کیمیکل پر تل چپکے ہوتے ہیں۔ رہ گئے گرم میوہ جات تو ان کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے کلیجے پر بھالا سا لگتا ہے۔ اتنے مہنگے ہیں کہ ڈاکٹر، ڈاکو، وکیل، سیاست دان اور حکمراں طبقہ ہی کھا سکتا ہے۔ عام آدمی کی دسترس میں تو مونگ پھلی بھی نہیں رہی۔ چار سو روپے کلو۔ پہلے مونگ پھلی سے ایک دانے دو دانے نکلتے ہیں۔ اب تو چار چار منزلہ مونگ پھلی آرہی ہے، یہ موٹا دانہ لیکن ذائقہ نام کو نہیں۔
کراچی میں دسمبر کے ساتھ ہی سردی کا آغاز ہوگیا تھا، پر اتنا کہ لحاف اوڑھ کر پنکھا کھولاجاسکتا تھا لیکن تین چار دن سے تو اتنی سردی پڑرہی ہے کہ اچھے خاصے سخت جان بولائے بولائے پھر رہے ہیں اور ناراض بیگم کو میکے پیغام بھیج رہے ہیں ’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘۔ ایسی ہی سردیاں دیکھ کر کراچی میں اسکولوں کی تعطیلات دسمبر کے آخری دنوں میں رکھی جاتی ہیں۔ سردی میں منہ اندھیرے بچے تو کلکاریاں مارتے اچھل رہے ہوتے ہیں ترس ان والدین پر آتا ہے جو بجتے دانتوں سی سی کرتے اسکول وین کے انتظار میں بچوں کی انگلی پکڑے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہم ان میں سے ہیں جن پر ہر موسم لشکر کشی کرتا آتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں سردی محسوس ہی نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں سردی اور بے عزتی کو جتنا محسوس کیا جائے اتنی ہی زیادہ لگتی ہے۔ وہ لوگ جو سردی لگنے کی کیفیات سے محروم ہیں، ان کے لیے چند مشورے۔ سب سے پہلے نظیر اکبر آبادی کی اس منظر کشی کو عملی صورت دیں
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہوکوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑ کاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا ہو آگے اک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو پھر دیکھ بہاریں جاڑے کی
سردیوں میں انسان کسی کو کھونے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا ٹھنڈے پانی سے منہ دھونے سے۔ نہانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نہانے کے لیے جگر چاہیے۔ ایک گھنٹہ اپنی ہمت بندھائیں تو کپڑے اتارنے کی جرات برہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اگلے ایک گھنٹے ٹھنڈے پانی کے آگے مجرا بجا لائیں تب پہلا ڈونگہ جسم پہ ڈالنے کی گستاخی سرزد ہوتی ہے۔ دراصل ہم سردی کے بدلے کابھی گرمیوں میں نہالیتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سردی نہیں لگتی ذرا منہ اندھیرے یا اگر اللہ توفیق دے رات کو ٹھنڈے پانی سے نہاکر دیکھیں مزا آجائے گا۔ اس کے بعد گیلے جسم پر ہلکے سے کپڑے پہن کر بغیر ہلمٹ، جیکٹ، موزوں اور دستانوں کے کھلی سڑکوں پر تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلائیں، پتا لگ جائے گا وطن کی ہوائیں کیسے سلام کہتی ہیں۔ اس کے بعد اس مقولے پر عمل کریں کہ آئسکریم کھانے کا مزہ سردیوں میں ہے۔
دسمبر تو گزر جاتا ہے لیکن جنوری ہمیں کسی بھولی بسری یاد، کسی وجود سے اٹھتی خوشبو اور کسی چوکھٹ پر تنہا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔
پھر سے تیری یاد میری چوکھٹ پہ کھڑی ہے
وہی سردی، وہی بارش وہی جنوری ہے
وہ تہجد کے وقت ہمیں خدا سے مانگنے اٹھی تھی لیکن ٹھنڈا پانی دیکھ کر وضو کی ہمت نہیں ہوئی اور سوگئی۔ اے کاش وہ یہ لمحے نہ گنواتی وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ ان دنوں ہم اس پر ایک غزل کہہ رہے تھے وہ غزل آج بھی ادھوری ہے۔ اب تو ہماری تنہائیاں ہیں اور اس کی یادیں۔ سردیوں کی بارش تن میں آگ سی لگا دیتی ہے۔ وہ مقام جہاں ہم ملا کرتے تھے ہم آج بھی سردیوں کی شاموں میں الاؤ دہکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ الاؤ میں اس کا چہرہ یوں آکر ٹھیر جاتا ہے جیسے بکھری محبت یکجا ہوگئی ہو۔ دل کا ایک ایک گھاؤ سلگنے لگتا ہے۔ سردیوں میں جو شال وہ اوڑھتی تھی آج بھی ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ برسات ہو نہ ہو اس کے ساتھ گزارامون سون آج بھی آنکھوں میں ہے۔ کل اس کی برسی تھی۔ شدید سردی کے باوجود ہم اس کی قبرپر گئے۔ وہ قبر کے اوپر بیٹھی تھی۔ ہم نے پوچھا ’’خیریت‘‘ بولی ’’اندر گرمی لگ رہی تھی سردی انجوائے کرنے اوپر آگئی ہوں، اور پھر تم بھی تو آنے والے تھے۔ کہاں رہ گئے تھے میں کب سے تمہاری منتظر ہوں۔ ورائے جسم میں آج بھی تمہیں پکارتی رہتی ہوں۔ یاد ہے ایسی ہی سردیاں تھیں جب ہم تم ملے تھے۔ آؤ میرے ساتھ قبر میں آجاؤ، بیٹھ کر باتیں کریں گے۔‘‘ وہ ہمارا ہاتھ پکڑنے آگے بڑھی۔ ہم چیخ مارکر ایسا بھاگے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔