ڈاکٹر رضوان الحسن
پاکستان کی فارن کرنسی مارکیٹ ایک ہفتے سے غیر یقینی اور بے چینی کا شکار ہے۔ امریکی ڈالر جس کے ریٹ پاکستانی روپے میں 105 تھے وہ 112 روپے میں فروخت ہورہا تھا اس صورت حال سے سب سے زیادہ جو متاثر ہوئے ان میں برآمد اور درآمد کنندگان، بیرونی ملک سفر کرنے والے اور وہ طلبہ جو غیر ملکی تعلیمی اداروں میں فیس جمع کرانا چاہتے تھے۔ اس بے چینی کا آغاز پچھلی جمعرات سے ہوا جب ڈالر 105 سے 107 روپے پر پہنچ گیا۔ اس پر اگلے دن اسٹیٹ بینک نے پریس ریلیز جاری کی کہ اس وقت ملک کی شرح نمو 6 فی صد متوقع ہے، بڑی صنعتوں کا شعبہ 8.4 فی صد سے ترقی کررہا ہے۔ نجی شعبہ کو قرضوں کی رفتار اطمینان بخش ہے، اس کے ساتھ برآمدات، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) بہتری کی طرف جاری ہے جب کہ درآمدات میں اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت بڑھ گیا ہے جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ چناں چہ ڈالر کی طلب اور رسد کو سامنے رکھتے ہوئے زرمبادلہ کی شرح میں نظرثانی کرتے ہوئے 107 روپے فی ڈالر کردیا گیا ہے۔ لیکن منگل 12 دسمبر کو دوبارہ فارن کرنسی مارکیٹ میں افراتفری مچ گئی اور ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوگیا اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے نرخ 112 روپے تک پہنچ گئے اور اس طرح 5 دنوں میں ڈالر سات روپے مہنگا ہوگیا اور اس طرح پاکستانی روپے کی قدر میں 1.8 فی صد کی ہوئی جب کہ اگلے دن اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر 110.65 روپے، ڈالر کی قیمت ظاہر کی جارہی ہے اور بینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فی الحال ڈالر کے نرخ کو مارکیٹ میں طلب اور رسد کی قوتوں پر چھوڑ دیا ہے اور صورت حال زیادہ خراب ہوئی تو اسٹیٹ بینک اس میں مداخلت کرے گا جب کہ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کا کہنا یہ ہے کہ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی صورت حال غیر واضح اور غیر یقینی ہے، راتوں رات منافع کمانے والوں نے ڈالر کو غائب کردیا ہے اور مارکیٹ میں ڈالر کی قلت ہے جس سے ڈالر کے نرخ مزید اوپر جاسکتے ہیں۔
ملکی معیشت میں زرمبادلہ کی شرح (Exchange Rate) کی بہت اہمیت ہے۔ پیداواری اور کاروباری سرگرمیاں، درآمدات و برآمدات، روزگار اور مہنگائی اور کاروبار حصص غرضیکہ تمام ہی معاشی، تجارتی اور صنعتی معاملات میں شرح زرمبادلہ کی کلیدی حیثیت ہے۔ حکومت کے معاشی پالیسی ساز اس کی پوری کوشش کرتے ہیں یہ شرح مستحکم رہے لیکن اس شرح کے استحکام کا انحصار زرمبادلہ کے اندرونی اور بیرونی بہاؤ کے توازن پر ہے۔ بیرونی امداد قرضے، برآمدات کی آمدنی، بیرونِ ممالک مقیم افرادی قوت کے ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ایک ملک بیرونی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے جب کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، فارن کمپنیوں کا اپنے منافع کو بیرون ملک بھیجنا اور درآمدات کی ادائیگی کے ذریعے ایک ملک کا زرمبادلہ باہر چلا جاتا ہے، زرمبادلہ کے حصول کے مسائل پاکستان کو کئی سال سے درپیش ہیں لیکن سال 2017ء میں یہ شدت اختیار کرگئے ہیں۔ سی پیک کے مختلف منصوبوں میں مشینری درکار ہے جو چین سے درآمد کی جارہی ہے، اس کے باعث پاکستان میں درآمدات 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ پاکستانی حکومت کے کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ برآمدات پر بھی توجہ دیتی تا کہ برآمدات کی آمدنی سے درآمدات کی ادائیگی ہوجاتی۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب نے برآمدات پر توجہ نہ دی اور یہ بات ان صفحات میں بار بار دہرائی جاچکی ہے تو برآمدات بجائے بڑھنے کے کم ہوگئیں اس طرح تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ پرانے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا وقت بھی آگیا وہ بھی ڈالر میں ادا کیا جاتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے دو ہفتے پہلے ڈھائی ارب ڈالر سکوک بانڈ اور یورو بانڈ کی فروخت سے حاصل کیے۔ چناں چہ اس وقت ملک میں ڈالر کی طلب زیادہ اور رسد کم ہے اور یہ عام رسد کم ہو تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ دو ماہ تک ٹماٹر کی طلب زیادہ اور رسد کم تھی چناں چہ ٹماٹر 200 روپے کلو بک رہا تھا اب ٹماٹر کی مقامی فصل آگئی ہے دوسرے الفاظ میں رسد بڑھ گئی ہے تو ٹماٹر کی قیمت 50 روپے کلو تک آگئی ہے۔ یہی معاملہ فارن کرنسی کا بھی ہے۔
دوسرا معاملہ برآمد کنندگان کا بھی ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی شرح مبادلہ بہت بلند ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی برآمدات بہت مہنگی ہیں۔ روپے کی قدر گرنے سے برآمدات سستی ہوں گی اس طرح برآمدات میں اضافہ ہوگا، لیکن تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں روپے کی قدر گرانے سے برآمدات میں اضافہ نہ ہوا بلکہ درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں۔ اس مرتبہ ڈالر کے نرخ 112 تک چلے جانے کی وجہ سے پٹرول، کھانے کا تیل، خشک دودھ اور دوسری کھانے کی اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کا بوجھ پاکستانی کرنسی میں بڑھ جائے گا۔ ڈالر کے مہنگا کرنے کا یہ اقدام جو آئی ایم ایف کے مشورے پر کیا گیا ہے پاکستانی معیشت میں کیا رنگ دکھاتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔