ایک دن میں دو اہم فیصلے

534

گزشتہ جمعہ کو عدالت عظمیٰ نے دو بہت اہم مقدمات کا فیصلہ ایک ہی دن میں سنادیا۔ایک عرصے سے ان مقدمات کے فیصلوں کا انتظار کیا جارہا تھا۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کئی اہم فیصلے جمعہ ہی کو آئے۔ مذکورہ دو فیصلوں میں سے ایک تو پاکستان تحریک انصاف کے صدر نشین عمران خان کے اور دوسرا شریف برادران کے حق میں ہے۔ عمران خان کی نا اہلی کے لیے مسلم لیگ ن کے ایک رہنما حنیف عباسی نے عدالت سے رجوع کررکھا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے جب کہ خود حنیف عباسی پر منشیات کے حوالے سے مقدمہ چل رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مدعی حنیف عباسی کے پیچھے کچھ دوسرے ہی لوگ تھے جو عمران خان سے خوف زدہ ہیں اور انہیں سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق عمران خان پر دروغ گوئی، بے ایمانی اور منی لانڈنگ کے الزامات ثابت نہیں ہوسکے چنانچہ وہ نااہل قرار دیے جانے سے بچ نکلے۔ لیکن ابھی ان کی جان پوری طرح نہیں چھوٹی کیونکہ عدالت عظمیٰ نے پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے انہیں الیکشن کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور اب وہاں ان کی طلبی ہوتی رہے گی۔ اسی کے ساتھ عمران خان کے قابل اعتماد ساتھی اور تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین تا عمر نااہل قرار دے دیے گئے ۔ اس فیصلے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جارہا ہے کہ جس شق کے تحت جہانگیر ترین زندگی بھر کے لیے نااہل ٹھہرے اسی شق کا اطلاق میاں نواز شریف پر بھی ہوتا ہے اور وہ بھی عمر بھر کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔ جہانگیر ترین پر یہ الزام ثابت ہوگیا کہ انہوں نے عدالت سے جھوٹ بولا،آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی، انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے اعتراف جرم کیا، انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہیں شق F(I)62 کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے اور اسی شق کا اطلاق میاں نواز شریف پر ہوا ہے۔ عمران خان تو نااہلی سے بچ نکلے لیکن ان کے انتہائی معتمد اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری جھوٹے اور بے ایمان نکلے تو اس کی جوابدہی بھی عمران کو کرنی چاہیے کہ وہ ایک طویل عرصے تک ایک بے ایمان ، جھوٹے اور خائن کو اپنے سینے سے کیوں لگائے رہے۔ کسی بھی پارٹی کا کوئی عام عہدے دار بُرے کردار کا مالک ہوتو اس کی ذمے داری پارٹی سربراہ پر عاید ہوتی ہے۔ لیکن عمران خان نے یا تو چشم پوشی کی یا وہ بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ممکن ہے اس کی وجہ کچھ مالی مفادات ہوں کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ پارٹی اور عمران خان کے اخراجات جہانگیر ترین ہی برداشت کرتے تھے۔ بظاہر پاکستان تحریک انصاف اور خود عمران خان کے ذرائع آمدن واضح نہیں ہیں اور عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ایک ایک جلسے میں لاکھوں کے اخراجات جہانگیر ترین برداشت کرتے تھے۔ انہی کے طیاروں میں عمران خان کی آمدورفت ہوتی تھی۔ پیپلزپارٹی کے نو عمر چیئرمین نے تو جہانگیر ترین کو عمران خان کا اے ٹی ایم قرار دیا ہے لیکن کبھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آصف زرداری کا اے ٹی ایم کون اور کہاں تھا کہ ایک متوسط درجے کے شخص حاکم علی کا بیٹا کھرب پتی کیسے ہوگیا۔ بہر حال، ایک دوسرے پر الزامات تو اب سیاسی کھیل کا لازمہ ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے عدالت سے فیصلے سے اتفاق نہ کرنے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے نظرثانی کی اپیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے جہانگیر ترین کو پیشکش کی کہ وہ بطور جنرل سیکرٹری کام کرتے رہیں۔ جب میاں نواز شریف نااہل ہوکر بھی اپنی پارٹی کی صدارت کرکے ایک انوکھی مثال قائم کرچکے ہیں تو جہانگیر ترین بھی پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری رہ سکتے تھے لیکن انہوں نے معقولیت کا ثبوت دیتے ہوئے استعفا دے دیا۔ عمران خان الزامات سے تو بری ہوگئے لیکن ان کا ایک اعلان ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں یا جہانگیر ترین نا اہل ثابت ہوئے تو میں سیاست چھوڑدوں گا۔ ممکن ہے کہ انہوں نے ایک اور یوٹرن لے لیا ہو۔ مسلم لیگ ن اس بات پر بہت خوش ہے کہ عدالت عظمیٰ نے حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ خارج کردیا جس میں شریف برادران کا نام آرہا تھا اور شیخ رشید جیسے لوگ اس مقدمے کو کرپشن کی نانی کہہ رہے تھے لیکن اب ان کو نالہ لئی میں ڈوب مرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ شیخ رشید کیا، بڑے سیاستدان بھی کہیں ڈوبتے نہیں خواہ نالہ لئی ہو یا چلو بھر پانی۔ عدالت عظمیٰ سے نا اہلی کی سند پانے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ایک طرف تو حدیبیہ کیس بند ہونے کو انصاف کی فتح قرار دے رہی ہے دوسری طرف عمران خان کی برأت سے خوش نہیں اور کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو بچانے کے لیے جہانگیر ترین کی قربانی دی گئی۔ عمران خان بھی نیب پر الزام لگارہے ہیں کہ اس نے نواز شریف کو بچا لیا اور حدیبیہ پیپر ملز میں دلائل صحیح طرح نہیں دیے گئے۔ یہ بات تو فریق مخالف بھی کہہ سکتا ہے کہ عمران خان کو بچا لیا گیا۔ مسلم لیگ ن اپنے رہنما نواز شریف کی نا اہلی اور عمران خان کی برأت کا موازنہ کررہی ہے اور اس کے بقول ایک ہی جیسے مقدمے میں ایک کو سزا، دوسرے کو چھوٹ دی گئی۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے جسٹس فیصل عرب نے فیصلے سے ہٹ کر ایک نوٹ لکھا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ دونوں مقدمات کے حقائق مختلف ہیں۔ نواز شریف کئی مرتبہ عوامی عہدے پر رہے اور ان پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ اس پر ن لیگ والے یہ اعتراض اٹھارہے ہیں کہ آپ یہ موازنہ کرنے والے کون ہوتے ہیں، آپ تو پانامہ مقدمہ سننے والی بینچ میں تھے ہی نہیں۔ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ سب کچھ ایک اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ان فیصلوں پر بھی ایک عرصے تک تبصرے اور تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن جو عناصر عدالت عظمیٰ اور ججوں پر کسی اسکرپٹ کا حصہ ہونے اور دیانت پر شبہ ظاہر کررہے ہیں وہ نظام عدل کو مشکوک بناکر سخت غلطی کررہے ہیں۔ اگر عدالتوں پر سے اعتبار اٹھ گیا تو عوام کس پر اعتبار کریں گے۔ سیاستدانوں میں سے تو بیشتر ناقابل اعتبار اور خائن ثابت ہوچکے ہیں اب نظام عدل ہی سہارا رہ گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں بعض ججوں نے غلط فیصلے کیے اور آمروں کو قانونی حق دے کر بہت بڑا گناہ کیا لیکن ایسے فیصلوں پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے اور انہیں کبھی بطور نظیر معتبر نہیں سمجھا گیا۔ اب بھی اگر نظریہ ضرورت کا طعنہ دیا جائے تو یہ اس قوم پر ستم ہوگا۔ بات یہی ہے کہ اگر فیصلہ حق میں ہو تو انصاف کی بالادستی اور اگر خلاف ہو تو نا انصافی، اسکرپٹ وغیرہ اور نواز شریف کے بقول اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ۔ کیا کبھی اس پر غور کیاگیا کہ معاشرے میں اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟ بد ترین مجرم، سفاک قاتل اور لٹیرے بھی یہی کہتے پھریں گے کہ ان سے انصاف نہیں کیاگیا۔ عمران خان کو بری کرنے اور جہانگیر ترین کو سزا دینے کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت نے توازن قائم کیا اور اس طرح نواز شریف کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی سزا دی گئی۔ مسلم لیگ ن چیخ رہی ہے کہ یہ عدل کا دوہرا معیار ہے اور یہ نظریہ ضرورت کی نئی قسم ہے۔ نواز شریف کے مطابق انصاف کے ترازو الگ الگ ہیں۔ اس قسم کے الزامات کا جواب عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے اگلے دن دیا ہے اور اس کی سخت مذمت کی ہے کہ جج کسی کے دباؤ میں آکر فیصلے کرتے ہیں۔ پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نظام عدل کے استحکاکے لیے کام کرے۔