ایک مرتبہ پھر حکومت اور عدلیہ کے درمیان گرما گرمی اور الفاظ کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ نا اہل نواز شریف نے عدلیہ کے بارے میں قابل اعتراض جملے کہہ کر چیف جسٹس کو غصہ دلادیا جس پر انہوں نے کھل کر بیان دیا ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ دباؤ ڈال کر فیصلہ کرانے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔ گالیاں نہ دیں عدالت عظمیٰ آپ کا بابا ہے، سیاسی گند نکل جائے تو عام آدمی کے مقدمات کو وقت دیں۔ انہوں نے دباؤ کے حوالے سے جواب دیا کہ اگر دباؤ ہوتا تو حدیبیہ کا فیصلہ کچھ اور ہوتا، کسی پلان کا حصہ ہیں نہ بنیں گے۔ بد عنوانی معا شرے کی بڑی بیماری ہے اس کو ختم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے جمہوریت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ میں پھنس گیا ہوں عمران خان، نواز شریف اور جہانگیر ترین کے کیسز میں۔ قانونی اصلاحات میں کوئی پائیدار کام نہ کرنے پر شرمندگی ہے۔ عام طور پر الزامات اور جوابی الزامات کوئی ٹھوس بات نہیں نکلتی اور بس بات آئی گئی ہوجاتی ہے لیکن چیف جسٹس صاحب گرما گرمی میں کچھ ٹھوس باتوں کی نشاندہی کر گئے ہیں یا کچھ سوالات اٹھا گئے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ تو جوش خطابت ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ دباؤ ڈال کر فیصلہ کرانے والا پیدا نہیں ہوا۔ انہیں کیا علم کہ کون پیدا ہوچکا اور کون کل دباؤ ڈال کر فیصلہ کرالے گا۔ کل کے بارے میں کسی کو علم نہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ دباؤ ہوتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ کچھ اور آتا۔ لیکن اس فیصلے سے یہ بھی لگ رہا ہے کہ دباؤ نہیں تو کوئی پلان ضرور ہے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ہم پلان کا حصہ نہیں لیکن پلان بنانے والے ہر پلان میں ہر ایک کو حصہ نہیں بناتے۔ کسی کو شیر سے مروانا ہو تو اسے بھوکے شیر کے پنجرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ شیر پلان کا حصہ نہیں ہوتا۔ لیکن وہی کرتا ہی جو اسے کرنا چاہیے۔ حدیبیہ کیس میں بھی نیب اور پلان بنانے والوں نے کیس ہی ایسا بنایا کہ عدالت نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ لیکن چیف جسٹس صاحب کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی پلان ہے ضرور۔ آپ اس پر بھی نظر رکھیں اگر عدالت عظمیٰ سب کا بابا ہے تو اس آخری سیاسی گند کو بھی نکال باہر کریں پلان بنانے اور چلانے والوں کو بھی بے نقاب کردیں۔ پھر آپ کی نسلیں بھی کبھی شرمندہ نہیں ہوں گی۔ یہ جو چیف جسٹس صاحب تین آدمیوں کے کیس میں پھنس گئے ہیں تو انہیں قاضیوں کے فیصلوں کے انداز کو یاد کرنا پڑے گا۔ اس سے زیادہ پیچیدہ مقدمات ثبوت کے بغیر دعوؤں اور صفائی گواہ کے بغیر انصاف ایک دو نہیں ہزارہا مقدمات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ خلیفہ وقت اور عام آدمی کا مقدمہ ہو یا یہودی اور مسلمان کا قاضی نے ایک نشست میں فیصلے دیے اتنا الجھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ذرا چند لمحے رک کر اس آئین کے مطابق جس کے تحفظ کی قسم کھائی ہے ان لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی کرنے بیٹھیں تو چند گھنٹے لگیں گے۔ دفعہ 63 و 62 پر تینوں کو پرکھ لیتے۔ عمران خان، جہانگیر ترین اور نواز شریف کا ماضی سامنے ہے تینوں سیدھے سیدھے نا اہلی کے کیس ہیں۔ نواز شریف تو سود کی حمایت میں مقدمہ کرنے۔ قادیانیوں کی حمایت میں بیان، ممتاز قادری کی پھانسی اور پاکستان کے دشمن بھارت کے حکمرانوں کے لیے قانون کی پاسداری نہ کرنے پر کھلم کھلا نا اہل ہیں۔ مالی معاملات الگ خراب ہیں۔عمران خان آج کل بہت اچھے جارہے ہیں لیکن ماضی کے اعتبار سے انہیں اہلیت کے معیار پر موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہانگیر ترین کے چند برس کے ٹیکس ریکارڈ سے سب واضح ہوجائے گا لہٰذا چیف جسٹس صاحب ایک بار پھرعرض ہے قانونی اصلاحات کے کام میں پائیدار پیش رفت یہی ہے کہ تمام ججوں کو اسلامی عدالتوں کے قاضیوں کے فیصلوں کو پڑھنے اور ان کی روشنی میں فیصلوں کا پابند بنایا جائے۔ وکیل اور جج بننے کے لیے اسلامی نظام عدل سے مکمل واقفیت کو لازمی قرار دیا جائے۔ یہی پائیدار کام ہوگا اور آئین پاکستان کے تحفظ کی قسم بھی اسی کے ذریعے پوری ہوگی۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی نہیں رہنی چاہیے کہ جمہوریت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ عدالت عظمیٰ سب کا بابا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عدل و انصاف نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ عدالت عظمیٰ جمہوریت، مارشل لا، باد شاہی نظام سمیت ہر نظام میں عدل و انصاف دینے کی پابند ہے جمہوریت ابھی دو سو سال کی پیداوار ہے اور اسلام ڈیڑھ ہزار سال کا تواتر کے ساتھ عدل و انصاف کرنے والا مذہب اور نظام ہے۔ اس سے قبل بھی انبیا اور اسلامی حکمرانوں کے فیصلے تاریخ میں رقم ہیں۔ حضرت یوسفؑ ، حضرت سلیمانؑ کے فیصلے اور طرز حکمرانی یہ سب سامنے ہیں۔ جمہوریت کی کیا اوقات دو سو سال قبل جمہوریت نہیں تھی تو کیا کچھ بھی نہیں تھا۔ ترکی کی خلافت تھی تو یورپ کانپتا تھا برصغیر کے مغل بادشاہ تھے تو ان سے یورپ اور عرب دنیا مستفیض ہوتی تھی۔ لہٰذا یہ حقیقت ہمیشہ محل نظر رہنی چاہیے کہ جمہوریت ہو یا کوئی نظام عوام کو انصاف ملنا چاہیے۔ اﷲ نے قرآن میں حکم دیا ہے عدل کرو یہ تقویٰ ہے قریب ہے۔ جمہوریت اختیار کرنے کو ہرگز نہیں کہا۔ لہٰذا آئین کے تحفظ کے ساتھ عدل و انصاف دینے کی بھی قسم کھائیں۔ بہر حال عدالت عظمیٰ سب کا بابا ہونے کے باوجود مظلوم بھی ہے۔ جس کو فیصلہ پسند نہیں آیا وہ فیصلے پر تنقید کے بجائے عدلیہ اور ججوں کو نشانہ بناتا ہے۔ جب پی پی کے خلاف فیصلہ آیا تو یہی نواز شریف، زرداری صاحب کو فیصلہ قبول کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کا احترام سکھارہے تھے اب بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل قرار دینے والے زرداری صاحب نواز شریف کو عدالت کا احترام سکھارہے ہیں۔ عجیب تماشا ہے۔