ڈاکٹر فضل ربی نیر کراچی
کراچی کے کروڑوں باسی عدالت عظمیٰ کے ممنون و مشکور ہیں کہ جس نے کراچی کے باسیوں کی جانوں کی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بِل بورڈوں (اشتہاری بورڈوں) کے خلاف نہایت سختی کے ساتھ نوٹس لے لیا اور ایسے سارے بورڈوں کے فی الفور ہٹانے۔ گِرانے یا کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا۔
ہم کراچی کے باسی اپنے پچھلے تیس سالہ تجربات اور مشاہدات کی بنا پر بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ اِس لیے ہم کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور پھر اُن کے اندر موجود موجزن جذبات کا بڑی جلدی احساس اور ادراک کر لیتے ہیں۔ اِس خاص معاملے میں بھی ہم یہ احساس رکھتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں کے سروں پر منڈلانے والے خطرات کا متعلقہ بنچ کے معزز ججوں نے بڑا بروقت نوٹس لے لیا۔
مگر شکر و سپاس اور عقیدت کے اِس خراج کے ساتھ ایک سوال ہمارے ذہنوں میں کچوکے لگا رہا ہے۔ لہٰذا ہم کراچی کے باسی توہینِ عدالت کے خطرات کے پیشِ نظر پیشگی معافی و معذرت کے ساتھ یہ سوال اُن ججوں کی خدمت میں پیش کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کی متعلقہ بنچ نے کراچی کے متعلقہ اداروں سے یہ اعداد و شمار تو ضرور لیے ہوں گے کہ پچھلے تیس یا بیس سال یا کم از کم دس سال کے دوران اِن بل بورڈوں کی موجودگی یا اکثر اوقات طوفانی ہواؤں کی وجہ سے گِر جانے کے سبب کتنی انسانی جانیں تلف یا ضائع ہو چکی ہیں؟۔ کتنے افراد زخمی ہو چکے ہیں؟ کتنے املاک کو نقصان پہنچا ہے؟ اور کتنی گاڑیاں متاثر ہو چکی ہیں؟
ہمیں اُمید ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بنچ کے استفسار پر متعلقہ اداروں اور ایجنسیوں نے عدالت عظمیٰ کے معزز بنچ کو یہ تفصیلات تو رپورٹ کی شکل میں ضرور دیں ہوں گی کہ پچھلے دس سال کے دوران اِن خطرناک بل بورڈوں نے یا اِن بورڈوں کی وجہ سے یا اِن بورڈوں کے گرنے یا ٹوٹنے سے اتنے انسان ہلاک ہوئے۔ اتنے زخمی ہوئے۔ اتنی املاک کو نقصان پہنچا اور اتنی گاڑیاں متاثر ہوئیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا کراچی کے باسی اِس مطالبے کو پیش کرنے میں حق بجانب نہیں کہ متعلقہ اداروں اور ایجنسیوں کی اِن تفصیلی رپورٹوں کو میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر لایا جائے۔ یہ اِس لیے کہ کراچی کے متاثرین اپنے اِس خطرناک دشمن کو بھی پہچان لیں۔ جس سے نمٹنے کے لیے عدالت عظمیٰ کے معزز بنچ نے اپنے انتہائی قیمتی اوقات اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کراچی کے باسیوں کو تحفظ دلانے کی ٹھان لی۔
توہینِ عدالت کے خطرے سے بچنے کے لیے پیشگی معافی و معذرت کے ساتھ کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ چند انسانی زندگیوں کے لیے ممکنہ اور موہومہ خطرے کو پیشِ نظر رکھ کر عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بنچ نے بل بورڈ وں کے خلاف تو اتنا بڑا قدم اُٹھا لیا۔ مگر کیا پچھلے تیس پینتیس سال کے دوران کراچی کے اندر قتل ہونے والے کم و بیش پینسٹھ ہزار انسانوں کے متاثرہ خاندانوں، اُن کے یتیموں، بیواؤں اور اولاد جیسے سہاروں سے محروم ہوجانے والے والدین کی اشک شوئی اور اُن کے compensation کے لیے کوئی از خود نوٹس لیا ہے؟؟
پچاسی چھیاسی کے فسادات کے دوران قتل ہونے والے سیکڑوں انسان۔ نوے تا بانوے کے دوران کراچی کے اندر بہنے والا پختونوں، پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور کشمیریوں کا خون۔ بعد کے برسوں میں ہڑتالوں کو کامیاب کرانے کے لیے بہائے جانے والے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون۔ بارہ مئی اور نو اپریل کو کراچی کے سڑکوں اور لا چیمبرز میں پرندوں اور مرغیوں کی طرح شکار ہونے والے بے بس انسانوں کا خون اور سب سے بڑھ کر بلدیہ فیکٹری میں زندہ انسانوں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچیوں کی تھی۔ مزدوروں کا خون کیا چیخ چیخ کر انصاف کا بھیک نہیں مانگتا رہا ہے؟۔ کیا اُن سب کو انصاف دلانا اِن معزز عدالتوں اور ریاستی اداروں کی ذمے داری نہیں؟۔ کیا اِن اداروں کے ذمے داروں اور اہلکاروں کو یہ احساس ہے کہ کل خدا کے سامنے پیشی کے وقت اِن بے گناہ مقتولین کے ہاتھوں سے اپنے اپنے گریبان کس طرح چھڑائے جا سکیں گے؟ گزرے ہوئے تیس پینتیس سال کے اندر کراچی میں بوری بند لاشوں اور بھتا خوری کا کلچر متعارف کرانے والے، کراچی پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے انڈیا جیسے مکار اور ازلی دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے، درندے، بھیڑیے، کن کٹے، لنگڑے، کانے، ہکلے، لمبے، کالے، ٹھیڑھے۔ کیا انصاف دینے اور انصاف پر عمل درآمد کرنے والے اداروں کی آنکھوں سے اوجھل تھے یا اب اوجھل ہیں؟ کہ جن بھیڑیوں اور درندوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے نام اور ٹوپیاں بدل بدل کر اب بھی ڈرائی کلین کرکے مجبور و بے بس عوام کے اوپر مسلط کیا جا رہا ہے۔
سابقہ اور حالیہ آپریشنوں کے دوران پاکستانی ایجنسیوں کے گرفتار کردہ ہزاروں دہشت گردوں اور قاتلوں کے تمام جرائم کے ثبوت عدالتوں اور اُن ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ کیا اُن ثابت شدہ قاتلوں کے خلاف بھی کوئی واضح اور حتمی کارروائی ہوئی ہے؟ کراچی کے باسی پچھلے تیس پینتیس سال سے اپنے ذہنوں میں پالنے والے اِن سوالات کے جوابات مانگ رہے ہیں۔ جب تک اِن سوالات کے تسلی بخش جوابات کراچی کے باسیوں کو نہیں ملیں گے اُس وقت تک نہ تو کراچی کے باسی اِن غیر متعلقہ اور غیر سنجیدہ اقدامات سے مطمئن ہو سکیں گے اور نہ اِن میں اور حکمرانوں کو معاف کریں گے اور نہ ہی اُن کم و بیش پینسٹھ ہزار مقتولین کی روحیں ان بے حس و بے شرم حکمرانوں کی جان چھوڑیں گی۔