اسلام مخالف بیانئے 

233

مظفر ربانی

ایک فاضل جج نے بھری عدالت میں سود کے خلاف سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے کہ سود کھانے والوں سے اللہ نمٹے گا یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام مخالف سوچ کہاں تک جا پہنچی ہے اسی طرح سینیٹ کے چیئرمین جو عام طور پر ایک معتدل سیاستدان گردانے جاتے ہیں قائداعظم کے شہر�ۂ آفاق قول سے کھلی بغاوت تک پر اتر آئے تھے جن کو لفظ ’’ایمان‘‘ سے بہت تکلیف پہنچتی ہے یہ تو تھے عدلیہ اور پیپلز پارٹی کے بیانیے۔ ن لیگ نے تو تمام حدیں ہی پار کردیں اور اپنی موجودہ حکومت کو بچانے اور اگلی حکومت کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی کے حلف نامے تک میں چوری چھپے ایسی تبدیلی کردی جس کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بات ن لیگ کی قومی اسمبلی تک محدود نہیں رہی نچلی سطح پر بھی جب کراچی کی کونسلر سطح کے ہاؤس میں اس حلف نامے کے خلاف قرار داد پیش کی گئی تو ہر جماعت کے نمائندے نے اس کے حق میں ووٹ دیا ما سوا فاروق ستار اینڈ کمپنی کے اور ن لیگ کے یعنی ن لیگ نے قوم کی آواز کو رد کر دیا جس مسئلے نے پوری قوم کی یکجا کر دیا اور دھرنوں کی مکمل حمایت کی اس کی بھی ن لیگ نے پروا نہ کی اور اس قرار داد کی مخالفت کر کے ثابت کر دیا کہ ابھی تو معاملہ ٹل گیا مگر جب بھی موقع ملا ن لیگ یہ گھناؤنا کھیل پھر کھیلے گی کوئی روک سکے تو روک لے۔
اقتدار کی خاطر کوئی اپنے ایمان کو اس طرح داؤ پر لگا سکتا ہے کوئی ذی ہوش مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دھرنوں کے دوران اور بعد میں جس طرح کے بیانیے سننے کو ملے وہ کوئی مسلمان خود سے تو ادا نہیں کر سکتا اس لیے لازمی طور پر یہ بیانیے ان کے منہ میں کسی اور نے ڈالے ہیں۔ کاشف عباسی ایک معروف اینکر ہیں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کو مسلمان کہتا ہے تو یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے، اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے؟ یعنی ماورائے آئین بات بھی اس لیے قابل قبول ہے کہ یہ ناموس رسالت کا معاملہ ہے اگر کوئی قاتل عدالت میں کھڑا ہو کر یہ کہے کہ یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے تو کیا کاشف عباسی اس کو بھی اسی زمرے میں رکھیں گے۔ کیا عجیب سیکولر ذہنیت ہے کہ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ اس کی چوبیس گھنٹے بلا تعطل کوریج کی جا رہی تھی اور پل پل اور لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی جاتی رہی اور قوم کے اربوں روپے داؤ پر لگے رہے حکومت کی ٹانگیں کھینچی جاتی رہیں پورا ملک ایک طرح سے جامد و ساکت ہو گیا کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوتا رہا سیاست میں نئے نئے القاب و ’’آداب‘‘ متعارف ہوتے رہے شائستگی کا جنازہ نکلتا رہا چینی صدر کا دورہ تک ملتوی ہو گیا مگر میڈیا کے سیکولر گاڈ فادرز کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسی بھی چینل پر کوئی قابل ذکر شو اس دھرنے کے خلاف پیش نہیں کیا گیا مگر ناموس رسالت کے تحفظ پر دیے جانے والے دھرنے کی ایسی چوٹ ان کے دلوں پر لگی کہ اس کی ٹیسیں ابھی تک محسوس ہو رہی ہیں اور بات بے بات گھما گھما کر دبے الفاظ میں اس دھرنے کی مذمت ہی کی جا رہی ہے۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے یہ سیکولر اینکرز کھل کر بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے مگر کر وہی رہے ہیں جو باہر سے ڈکٹیشن آ رہی ہے۔ ایک اور بیانیہ جو قابل غور ہے وہ کسی اور سے نہیں بلکہ مقتدر حلقوں کی طرف سے بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک سب کا ہے یہاں مسلمانوں، عیسائیوں ہندؤں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اس بات سے کون انکار کرتا ہے مگر بادی النظر میں یہ کہنا مقصود ہے کہ اس ملک کا آئین سیکولر ہونا چاہیے جبھی سب کو برابر کے حقوق مل سکیں گے اور آئین کی اسلامی شقیں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں، کیا ان کو یہ حقوق دے دیے جائیں کہ وہ نبی پاکؐ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرتے پھریں کیا ان کے حقوق کی فہرست میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اسلام اور شعائر اسلام کا کھلے بندوں استہزا کرتے پھریں۔ افسوس کہ ایسی باتیں مغرب کی طرف سے وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود کو عاشق رسول اور سچا پکا مسلمان کہتے نہیں تھک رہے کیا یہ عشق رسول ہے کہ کفار کے اشاروں پر اپنے پیارے نبیؐ کی شان اقدس نشانہ بنانے کی راہیں ہموار کی جائیں، اسی دوران جب بات نظام تعلیم کی طرف گئی تو بعض علما نے خصو صاً پنجاب اور بالعموم پورے ملک کے نصاب سے اسلامیات سے جہاد کی آیات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین، غزوات، مسلمانوں کی فتوحات اور مسلم سپاہ سالاروں کے اسباق کو حذف کر کے نیلسن منڈیلا اور دیگر بے کار قسم کے اسباق شامل کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تو کاشف عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ اس طرح تو ہر ایک اٹھے گا اور کہے گا کہ اس کے مطلب کا نصاب اسکولوں میں پڑھایا جائے لیکن جب انسان کی عقل پر پردہ پڑ جائے تو وہ اسی طرح کی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔ کیا سارے مسالک اس پر متفق نہیں ہیں کہ سود، شراب، جوا، زنا، چوری، کرپشن اسلام میں حرام ہیں کیا سب اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ عورت کو پردہ کرنا لازمی ہے، کیا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اولاد کی تربیت پر سارے مسالک متفق نہیں ہیں؟ کہیں کوئی ایک بات بھی ایسی ہے جس پر سب متفق نہیں ہیں اور کون سی ایسی بات ہے جس پر مسالک کے درمیان تفریق پائی جاتی ہے یہ جو میڈیا پر بیٹھ کر پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی مسلک کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں تو کس کا اسلام نافذ کیا جائے تو اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ جن باتوں پر سب متفق ہیں انہیں باتوں کو نافذ کردو۔