عدالتی مذاق

290

ناصر حسنی
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس پنجاب سید منصور علی شاہ صاحب سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ سائلین کو جلد انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو سرانجام دینا ہماری اولین ترجیح ہے۔ انصاف کی فوری فراہمی کے لیے ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر پنجاب محترم رفیق رجوانہ نے سینئر وکلا سے ملاقات کے دوران کہا کہ انصاف کی فوری فراہمی کے لیے وکلا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ انہیں اپنے فرائض منصبی کو صدقہ جاریہ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے کہ مظلوموں کی داد رسی کارخیر ہے۔ بار اور بنچ کے درمیان مضبوط روابط انصاف کی فراہمی کو آسان بناتی ہے، خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والوں پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
نظام عدل سے وابستہ حکام گاہے گاہے انصاف کی فوری فراہمی کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں مگر عملاً انصاف کی فراہمی تو درکنار انصاف ہی عنقا ہے۔ لگتا ہے انصاف کی دیوی کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کا فرمان ہے کہ سائلین کو انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جج خواہ وہ سول کورٹ سے تعلق رکھتا ہو یا سیشن کورٹ میں براجمان ہو یا ہائی کورٹ کی بلند و بالا مسند پر جلوہ فگن ہو، انصاف کی فراہمی کو اہمیت ہی نہیں دیتا وہ سائلین کے ساتھ پیشی در پیشی کا مکروہ کھیل کھیلتا ہے، لیفٹ اوور کے ہتھوڑے برساتا ہے، پیشی ملتوی کرکے ذہنی طور پر پُرسکون ہوجاتا ہے۔ جس مقدمے کی پیشی کینسل ہوتی ہے اس کی باری کئی ماہ کے بعد آتی ہے۔ پیشی وہی ملتوی کی جاتی ہے جس کی تاریخ جسٹس صاحب نے اپنے دست مبارک سے رقم نہ کی ہو۔
گزشتہ دنوں ہم بہاولپور ہائی کورٹ گئے، ایمرجنسی برانچ میں ایک بزرگ کو بہت غصے میں دیکھا۔ وہ سینئر جسٹس سے ملاقات کے لیے بضد تھے، ملاقات کا سبب پوچھا تو کہا کہ ان کا مقدمہ 2014ء سے زیر سماعت ہے مگر ابھی تک سماعت نہیں ہوئی، کبھی پیشی دی جاتی ہے، کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسایا جاتا ہے اور کبھی پیشی کو التوا کے جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔ بزرگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ جسٹس صاحبان کس قانون اور کس اخلاقی ضابطے کے تحت اسے ذہنی اذیت دے کر اسے ذہنی سکون کا سامان فرما رہے ہیں۔ ایمرجنسی برانچ کے انچارج نے سمجھجایا۔ بزرگ پہلے آپ سول برانچ کے انچارج سے مل لیں آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا اگر وہ آپ کو مطمئن نہ کرسکے تو آپ کو سینئر جسٹس سے ملوا دیا جائے گا۔ بزرگ نے اس کی بات مان لی وہ سول برانچ کے انچارج سے ملنے گئے ہم بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ انچارج صاحب نے ان کی فائل طلب کی، فائل کا مطالعہ کرکے کہنے لگے بزرگوں آپ پریشان نہ ہوں جب بھی پیشی کا مسئلہ ہو میرے پاس آجانا آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور متعلقہ کلرک کو فوری پیشی دینے کا کہا اور ہم سوچنے لگے کہ 2014ء سے زیر سماعت مقدمے کی سماعت اب تک کیوں نہ ہوسکی؟
21 نومبر کی پیشی کینسل ہوگئی تھی متعلقہ افسر نے 30 نومبر کی پیشی دی مگر سماعت پھر بھی نہ ہوسکی کیوں کہ 30 نومبر کو جسٹس صاحب رخصت پر تھے، خدا جانے اب پیشی کب پڑے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے؟ کیسا نظام عدل ہے کہ 2014ء کے مقدمے کی سماعت 2018ء میں بھی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ شاید یہ عدالتی مذاق ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدلیہ کب تک سائلین کا مذاق اُڑاتی رہے گی؟۔