کوئٹہ میں دہشت گردی 

491

اب تو یہ معمول بن گیا ہے جس روز وزیر اعظم یا آرمی چیف دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق کوئی بات کرتے ہیں اگلے روز یا اسی روز کوئی اور واقعہ ہو جاتا ہے ۔ ایسا ہی اس مرتبہ بھی ہوااتوار کے روز تمام اخبارات میں آرمی چیف کا بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے تین سال قبل آرمی پبلک سکول کے سانحے کے حوالے سے16دسمبر کی یاد مناتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اسی روز یعنی اتوار ہی کو ٹوٹی ہوئی کمر والے دہشت گردوں نے کوئٹہ میں چرچ میں تباہی مچا دی ۔ صدر وزیر اعظم آرمی چیف ، سب کے دعوے ہوا میں اُڑ گئے ۔ واقعہ جو بھی ہوذمے دار کوئی بھی ہو یا اس کا اعترافی بیان کوئی بھی جاری کرے نتیجہ یہ ہے کہ9افراد ہلاک اور50 زخمی ہو گئے ۔ اس مرتبہ تو اور افسوس ناک بات ہوئی کہ عموماً حملہ آور تمام کے تمام مار دیے جاتے ہیں اس واقعہ میں 2فرار ہو گئے ۔ پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے ۔ سیکورٹی ایسی ہے کہ ہر گلی بند ہے ۔ خصوصاً کوئٹہ میں کوئی سڑک سیکورٹی کے بغیر نہیں ہے ۔ ایک گلی سے دوسری گلی میں جاؤ ایک محلے سے دوسرے میں جاؤ تو چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ دکھاؤ ، کہاں جا رہے ہو، کس کے پاس جا رہے ہو وغیرہ وغیرہ سوالات کا جواب دیے بغیر کوئی نہیں جا سکتا ۔ ہر طرف قانون کے رکھوالوں کا گشت ۔لیکن وار دات کرنے والے کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پورے ملک میں ہر چرچ ، ہر مسجد ، ہر امام باڑے کا تحفظ ممکن نہیں ۔۔۔ بات بالکل درست ہے۔۔۔ ایسا ہی ہے لیکن پھر کمر توڑنے کے دعوؤں ہی سے پرہیز کیا جائے ۔ کم از کم متاثرین کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکا جائے ۔ جب لوگ اخبار میں یہ پڑھ کر گھر سے نکلیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ملک میں امن قائم ہو چکا ہے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ خود دہشت گردی کا شکار ہو جائیں توان کے اہلخانہ پر کیا گزرے گی۔ اس واردات کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق حکام کے بیانات اور واقعات میں تضاد ہے ۔ وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ ایک حملہ آور سیکورٹی اہلکار کی فائرنگ سے مارا گیا ۔ دوسرے نے دروازے پر خود کو اُڑا دیا ۔ آئی جی معظم انصاری بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اندر پہنچ جاتے تو زیادہ نقصان ہوتا ۔ لیکن تصاویر بتا رہی ہیں کہ پورا ہال تباہ ہو گیا ہے ۔ اگر دروازے پر حملہ آور نے خود کو اُڑا لیا تو کیا یہ 50 سے زائد لوگ دروازے ہی پر کھڑے تھے جو زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں ۔ واضح بات ہے کہ دھماکا اندر ہی کیا گیا ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمیشہ تمام حملہ آور مارے جاتے تھے اس مرتبہ دو فرار کیسے ہو گئے ۔ پھر جو لوگ خود کش حملہ آور ہوتے ہیں وہ مرنے کے لیے آتے ہیں فرار کے لیے نہیں۔یا تو وہ دو فراد تھے ہی نہیں جن کے فرار کی بات کی گئی ہے یا پھر سیکورٹی نہایت ناکارہ ہے کہ وہ نکل بھاگے ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ باقی دو خود کش حملہ آور تھے یا محض دہشت گرد۔۔۔ اگر وہ خود کش جیکٹ والے نہیں تھے تو ان کے پاس فائرنگ کے لیے بندوقیں ہوں گی وہ بھاگ کیوں گئے ۔ ڈی آئی جی کہتے ہیں کہ حملہ آور چار تھے ۔ آئی جی کہتے ہیں کہ دو تھے ۔ بات کچھ بھی ہو9 لوگ جان سے گئے ۔ اصل مسئلہ سیکورٹی اقدامات نہیں ہیں بلکہ وہ پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں اختیار کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں امریکی مداخلت بڑھی امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا گیا ۔ اپنے ہی بھائیوں سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کو لڑوایا گیا ۔ اب 20 برس کے عرصے میں رد عمل کے نتیجے میں یہ جنگ پاکستان بھر میں اپنے اثرات دکھا رہی ہے ۔ نواز شریف دور میں بھارت کو کھلی آزادی ملی اس کا جاسوس کلبھوشن پکڑے جانے اور کھلے عام اعترافی بیان کے باوجود پھانسی نہیں پا رہا ۔ اس کے معاملے کو غیر ضروری طوالت کا شکار کر رکھا ہے ۔ بار بار حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک فعال ہے اس کا ثبوت ہمارے پاس ہے لیکن یہ ثبوت لے کر کبھی اقوام متحدہ ، امریکا یا خود بھارت کے پاس نہیں گئے ۔ امریکی واشنگٹن میں کوئی بیان دیتے ہیں پاکستان میں کوئی اور۔۔۔ اور بھارت پہنچ کر کچھ اور کہتے ہیں لیکن ان کی پالیسی پاکستان کے ساتھ مستقل ڈو مور کے مطالبے کی ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر امریکی جنگ کی وجہ سے ہے جنرل پرویز مشرف کے بعد کچھ نیم دلانہ کوششیں ضرور ہوئیں لیکن اس جنگ سے برأت نہیں ہو رہی ۔ جس روز پاکستان اس جنگ سے الگ ہو گیا اس کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی ۔ یقیناً اس کے نتائج بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ مزید حادثات بھی ہو سکتے ہیں لیکن اسباب ختم کرنا زیادہ ضروری ہے ورنہ پھر کسی حادثے کو رو رہے ہوں گے ۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا ہے یہ بات پہلے بھی بار بار کہی جاتی رہی ہے ۔ اب بہت کچھ کرنے کا وقت بھی گزرا جا رہا ہے ۔ حافظ سعید صاحب نے بھی درست توجہ دلائی ہے کہ اگر سقوط ڈھاکا کا بدلہ لیا جاتا تو سانحہ آرمی پبلک اسکول بھی نہ ہوتا ۔ یہ ساری دہشت گردیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا اب کچھ تو کر لیا جائے ۔