بستی کے بیچوں بیچ، کتابوں کے درمیاں

797

احمد حاطب صدیقی
اِس بار کراچی کا دورہ بڑا دلچسپ رہا۔ ہر سال دسمبر کے آخر میں، یہاں شہر کے بیچوں بیچ، حسن اسکوائر پر واقع ایکسپو سینٹر میں، ایک بین الاقوامی میلۂ کتب کا انعقاد ہوتا ہے۔ امسال یہ میلہ دسمبر کے شروع ہی میں منعقد کر لیا گیا۔ ۷؍دسمبر تا ۱۱؍دسمبر۔ میلے میں شرکت کی دعوت تو ہر سال موصول ہوتی تھی۔ مگر ہر سال کوئی نہ کوئی عذرِ شرعی و غیر شرعی شرکت کی راہ میں حائل ہوجاتا تھا۔ اس سال عدم شرکت کا نہیں، بلکہ شرکت کا شرعی عذر پیدا ہوگیا۔ راقم الحروف کی ایک نہ دو، کُل نو کتابیں شائع ہو کر اِس میلے میں ’’رُونما‘‘ ہونے کو تھیں۔ جب اہلِ کراچی نے یہ میلہ لگایا اور ہمیں بلایا تو اہلِ اسلام آباد نے بہت ڈرایا:
’’میاں دو برس پہلے اشتیاق احمد کو بھی اسی کوفے میں مدعو کیا گیا تھا۔ واپسی میں کراچی ائر پورٹ ہی پر اُن کی حرکتِ قلب بند ہوگئی اور وہ ہم سے جدا ہوگئے۔ اب تم بھی اُسی کوچے کو چلے ہو‘‘۔
عرض کیا کہ: ’’اشتیاق احمد مرحوم تو ’دلِ درد مند‘ رکھتے تھے۔ انتہائی لائق و فائق اور مشہور و معروف و مقبول مصنف تھے۔ انہیں اپنے ہی معتقدین اور معترفین کی نظر لگ گئی۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ رہے ہم تو ۔۔۔ ’ہم کہاں کے دانا ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں‘ ۔۔۔ ہماری فکر نہ کرو۔ ہم خود اپنے دشمن ہیں۔ دشمن اپنا آسماں کیوں ہو؟‘‘
مارے اشتیاق کے ہم ۶؍ دسمبر ہی کو کراچی جا پہنچے۔ میزبانوں سے اجازت لے کر، ائرپورٹ کے قریب ہی واقع قبرستان میں، اپنی اُس بھتیجی کی قبر پر پہنچے، جسے بچوں کی نظموں والی کتاب کی اشاعت کا شدید انتظار تھا:
’’چچا! میں آپ کی نظموں کی کتاب بچوں میں مٹھائی کی طرح بانٹوں گی‘‘۔
کتاب چھپنے میں دیر ہو گئی۔ وہ جلدی چلی گئی۔
نو کتابوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک کتاب ’’مولانا ابوالجلال ندویؒ ‘‘ پر اور سات کتابیں بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانیوں پر مشتمل اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شائع کیں اور اس میلے میں روشناس کروائیں۔ یہ ہوئیں آٹھ کتابیں۔ نویں کتاب ’’یہ بات سمجھ میں آئی نہیں‘‘ بچوں کے لیے پُر مزاح نظموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ادارہ مطبوعاتِ طلبہ کراچی نے شائع کی۔ اس ادارے نے اس کتاب کا جو سرورق بنوایا وہ بچوں کے لیے نہایت پُر کشش اور دیدہ زیب ہے۔ سرورق پر چڑیا گھر کے جانوروں کے کارٹون بنے ہوئے ہیں۔ کتاب کے ہر صفحے کوچار رنگوں میں بنی ہوئی دلکش تصاویر اور پُرلطف خاکوں سے مزین کیا گیا ہے۔ ہر صفحہ آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے۔ یوں اس ادارے نے بچوں کو لبھانے میں گویا میلہ لوٹ لیا۔ میلے ہی میں اس کتاب پر لُوٹ پڑ گئی۔ وجہ اس کتاب کی دیدہ زیبی تھی۔ اتنے بچوں، بچیوں اور خواتین و حضرات نے اس کتاب پر ان نظموں کے شاعر سے دستخط لیے کہ شاعر موصوف یہ سمجھنے لگے کہ ہم بھی کہیں کے دانا ہیں، اورکسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہیں۔
ماہ نامہ ’’ساتھی‘‘ کے ساتھیوں نے، وہیں، کتاب میلے ہی میں، ۱۰؍دسمبر کو ایک تقریبِ رُونمائی بھی منعقد کر ڈالی۔ باقاعدہ ’رُونمائی‘ ہوئی۔ رسالے کے بانی مدیر، ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور’’ہمدرد فاؤنڈیشن‘‘ کے تحقیقی رسالے “Hamdard Islamicus” کے نائب مدیر جناب کلیم چغتائی نے ’’پورٹریٹ‘‘ پر سے پردہ ہٹا کر یا یوں کہیے کہ گھونگھٹ سرکاکر، سرورق کی ’’رُونمائی‘‘ کا فریضہ سرانجام دیا۔ جناب منیر احمد راشد، جناب فصیح اللہ حسینی، جناب سلیم فاروقی اور جناب کلیم چغتائی وغیرہ نے خطاب فرمایا۔ تقریب کے آخر میں ہمیں بچوں کو نظمیں سنانے کا موقع بھی ملا۔
میلے میں خود نمائی ہی کا موقع نہیں ملا، شہر بھر اور بیرونِ شہر سے آنے والے کتاب دوستوں سے ملاقات کا موقع بھی مل گیا۔ جناب مشتاق احمد خان، جناب عقیل عباس جعفری، جناب معراج جامی، جناب طارق رئیس فروغ، جناب عطا محمد تبسم، جناب شبیر ابن عادل، اور محترمہ شاہانہ جاوید وغیرہ وغیرہ۔
محترمہ شاہانہ جاوید کے دولت کدے پر اُن کی ضیافت سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملا۔ شاہانہ جاوید محسن بھوپالی مرحوم کی صاحب زادی ہیں، وہی محسن بھوپالی جن کا یہ شعر ہر دور میں ضرب المثل بنا رہا:
نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
میلے کے ان پانچ دنوں میں ایکسپو سینٹر میں مرد وزن کا بھی میلہ لگا رہا۔ صبح نو بجے سے رات نو بجے تک ہر عمر کے شائقینِ کتب ہزاروں کی تعداد میں ہر وقت داخل ہوتے اور باہر جاتے ہوئے نظر آتے رہے۔ چشم حیرت نے یہ بھی دیکھا کہ کتاب میلے میں شرکت کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ خواتین کو حفاظتی دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے طویل قطار میں لگنا پڑتا تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ حجاب استعمال کرنے والی خواتین کا پورے میلے پر غلبہ، بلکہ قبضہ تھا۔ بقول شخصے بے حجاب خواتین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تاکنا پڑتا تھا کہ ۔۔۔ ’کہاں ہیں، کس طرف کو ہیں، کدھر ہیں؟‘ ۔۔۔ یہ میلہ ایک اشاریہ تھا کہ شہر میں کن خواتین کی اکثریت ہے۔ اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب ’’کتاب خوانی‘‘ سے دلچسپی بھی صرف اُن خواتین کو رہ گئی ہے، جو حیا و حجاب کے فلسفے سے آشنا ہیں۔ ایک شام ہم چند دوست اخراج کے دروازے پر کھڑے یہی دیکھتے رہے کہ جتنی خواتین اور جتنے حضرات میلے سے باہر نکل رہے ہیں، سب کے ہاتھوں میں کتابوں سے بھرے تھیلے جھول رہے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ کتابوں سے دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ کیا یہ سب کے سب یا سو فی صد لوگ صرف اپنے ڈرائنگ روم کے پردوں کے رنگ سے میچ کرنے والے رنگ کی جلدوں پر مشتمل کتابیں خریدنے آئے تھے؟ ان میں سے کچھ فی صد توگھر جاکر یہ کتابیں پڑھتے بھی ہوں گے۔
ہر میلے کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ کوئی نصب العین ہوتا ہے۔ یعنی یہی کہ یہ میلہ کس لیے لگایا گیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ ذوقِ مطالعہ کو فروغ دینے کے لیے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ نصابی کتابوں کی تجارت کرنے والوں کا کاروبار بڑھانے کے لیے۔ چند خوش خیال ایسے بھی تھے جن کے خیال میں اس میلے کا مقصد علم و ہنر اور ادب و شاعری کو پروان چڑھانا تھا۔ مگر یہی بات ذرا ہم سے پوچھیے۔ ہم اور فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ بن زکریا صدیقی میلے کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے گئے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جناب یحییٰ بن زکریا صدیقی ایک پاؤں سے لنگڑا رہے ہیں۔ ان کو مشورہ دیا:
’’عزیزم ! ایک پاؤں سے لنگڑانے کے بجائے دونوں پاؤں سے لنگڑاؤ۔ توازن برقرار رہے گا‘‘۔
کہنے لگے:
’’دونوں پاؤں سے کیسے لنگڑاؤں؟ کوئی کرم فرما صرف ایک پاؤں کا جوتا چرا کر چلے گئے ہیں‘‘۔
تب ہم نے جانا کہ یہ میلہ کس لیے لگایا گیا تھا۔