اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق دنیا کے 37ممالک میں تقریباً 18کروڑ بچے شدید غربت کا شکار ہیں ۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ظلم و تشدد کے واقعات میں کثیر تعداد میں بچوں کی اموات ہوتی ہیں ۔ دنیا میں اس وقت بچوں کی تعداد 2.2ارب ہے جس میں سے تقریباً 9فیصد بچے اس طرح کے حالات سے دو چار ہیں ۔ عراق، شام، لیبیا، جنوبی سوڈان اور یمن میں خانہ جنگی کی زد میں آ کر کم عمر بچے مر رہے ہیں ۔ چھوٹی عمر ہی میں انہیں فوج میں جبری طور پر بھرتی کیا جارہا ہے۔ 1989ء میں اقوام متحدہ نے بچوں کا عالمی دن منانے کے حوالے سے قرار داد منظور کی تھی اور اس سلسلے کی تازہ رپورٹ میں یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اس خانہ جنگی کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے؟ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان پرامریکا نے ایک عرصے سے جنگ مسلط کی ہوئی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن اسی کے ایما پر ہوئے۔ پاکستان میں کسی ایک بچے پر ظلم ہو جائے تو دنیا بھر کی این جی اوز آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں لیکن کشمیر، برما اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ کہا جاتا ہے کہ بچے قوم کے معمار ہوتے ہیں کیوں کہ مستقبل میں یہی دوسروں کی جگہ لیتے ہیں ۔ بچوں کی اس کثیر مقدار میں ناخواندگی اور غربت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کہ آئندہ یہ جرائم کا سبب بنیں گے۔ حالاں کہ آج دنیا میں ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جو کل کے مہذب اور تعلیم یافتہ بچے تھے۔ آج دنیا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم تہذیب اور اخلاقیات نہیں صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا نام ہے۔ جس کے پاس پیسا ہو وہ عزت دار ہے خواہ ان سب کے بعد وہ دنیا میں قتل و غارت گری پھیلائے یا کوئی اور رذیل سے رذیل کام کرے۔