جنرل باجوہ ایوان بالا میں 

414

پاک فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ منگل کو ایوان بالا جا کر سینیٹروں سے خطاب کیا اور ایک نئی مثال قائم کی۔ گو کہ یہ خطاب بند کمرے کے اجلاس میں ہوا تاہم سوال یہ ہے کہ فوج کے سربراہ کو سینیٹروں سے خطاب کی کیا ضرورت پیش آئی۔ یہ صحیح ہے کہ فوج اور اس کے سربراہ بھی پاکستانی اور سینیٹ و قومی اسمبلی بھی پاکستانی اور ارکان پارلیمان بھی۔ باہم رابطوں پرحیرت نہیں ہونی چاہیے اور ایسے رابطے ہوتے رہنے چاہییں لیکن چونکہ پہلے ایسا نہیں ہوا اور ارکان پارلیمان اور فوج میں فاصلے رہے اس لیے سیاسی حلقوں کا اظہار حیرت بجا ہے۔ یہ خیال بھی کیا جارہا ہے کہ سیاسی بحران اور سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر گولہ باری کے پیش نظر خدشہ ہے کہ کہیں فوج ایک بار پھر جمہوری حکومت کا بستر لپیٹ کر اقتدار پر قبضہ نہ کرلے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک جمہوریت پر حملے بار بار ہوئے ہیں اس لیے یہ دھڑکا تو ہر وقت رہتا ہے کہ جانے کب کوئی طالع آزما ٹرپل ون بریگیڈ کو حرکت میں لے آئے۔ جنرل باجوہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ سیاست دان فوج کو موقع نہ دیں‘‘۔ انہوں نے بھی مارشل لا لگنے اور فوج کے اقتدار میں آنے کی ذمے داری سیاست دانوں پر ڈالی ہے۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لا لگا، سیاست دانوں ہی کو الزام دیا گیا۔ اس میں کسی حد تک تو حقیقت ہے لیکن پوری سچائی نہیں ۔ صدر جنرل اسکندر مرزا نے اس وقت مارشل لا لگایا تھا جب حکومتیں بار بار توڑی جارہی تھیں۔ لیکن اس ٹوٹ پھوٹ کے پیچھے کون تھا؟ مارشل لا اسکندر مرزا نے لگایا لیکن فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے ان کو معطل کر کے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایو ب خان اپنے ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ گئے اور مارشل لا کی دوسری قسط شروع ہوگئی جس سے مشرقی پاکستان کے عوام کا یہ شک یقین میں بدل گیا کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ان کا گزر نہیں ۔ سقوط ڈھاکا کے بیج بوئے جاچکے تھے اور یحییٰ خان جیسے بلانوش فوجی صدر نے اس آگ پر تیل چھڑک دیا۔ پھر انتخابات میں زبردست دھاندلی کے خلاف ملک بھر میں تحریک بپا ہوئی اور جس وقت پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو معاہدہ ہونے جارہا تھا تو جنرل محمد ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف نے جس وقت حکومت پر قبضہ کر کے مارشل لا لگایا، تاریخ شاہد ہے کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں میں ایسا تصادم برپا نہیں تھا جس پر کہا جائے کہ سیاست دانوں نے فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سب نے اپنے لیے صدر کے منصب کا انتخاب کیا لیکن جنرل باجوہ کی رائے ہے کہ صدارتی نظام ملک کو کمزور کرتا ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے جس میں منتظم اعلیٰ ( چیف ایگزیکٹو) وزیر اعظم ہوتا ہے، صدر محض دکھاوے کا ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ نے سینیٹروں سے خطاب میں کہا کہ پارلیمنٹ دفاعی اور خارجہ پالیسی بنائے، ہم عمل کریں گے۔ یہ یقین دہانی اس لیے بھی ضروری تھی کہ طویل عرصے سے یہ تاثر ہے کہ دفاع اور خارجہ تعلقات کے معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے فیصلے نافذ العمل ہوتے ہیں ۔ اب جنرل باجوہ موقع دے رہے ہیں تو سول حکومت اپنی کارکردگی اور ان شعبوں میں بالا دستی کا مظاہرہ کرے لیکن خیال رہے کہ اس راہ میں اچانک کوئی ’’ اسپیڈ بریکر‘‘ نہ آجائے۔ اس وقت پاکستان کی اقتصادی اور معاشی صورت حال قابل تحسین نہیں ہے، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ کمر توڑے ڈال رہا ہے۔ ایسے میں شاید کوئی طالع آزما ان مسائل کو اپنے سر لینے کی زحمت نہ کرے۔ جنرل باجوہ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ پارلیمان بالادست ہے اور آئین سے ماورا کردار کی خواہش نہیں ہے ، عوام کو جواب دہ ہیں، ماضی میں جانے کا فائدہ نہیں۔ بے چارے عوام تو سول حکمرانوں سے بھی جواب طلب کرنے کی ہمت نہیں رکھتے فوج سے کیا جواب سوال کریں گے۔ جنرل باجوہ نے آئینی کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم ان کے ایک پیشرو آئین کو کاغذ کا پرزہ قرار دے چکے ہیں لیکن باجوہ کہتے ہیں کہ ماضی میں نہ جایئے، دیکھنا ہوگا اب کیا کرنا ہے۔ جنرل باجوہ نے اپنے خطاب میں کئی بین الاقوامی معاملات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ تک کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں جنگ نہیں ہونے دیں گے۔ خدا کرے کہ یہ جنگ نہ ہو ورنہ ایران عراق طویل جنگ میں دونوں ہی ممالک بری طرح زخمی ہو کر ہانپنے لگے تھے اور دونوں مسلم ممالک کا نقصان ہوا تھا۔ فائدہ امریکا اور اسرائیل نے سمیٹا۔ اب سعودی عرب اور ایران محاذ آرائی کے لیے کندھے تول رہے ہیں ۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر تو ایران پر حملے کی ایک فرضی وڈیو بھی جاری کردی گئی ہے۔ کاش مسلم حکمران اپنا فائدہ، نقصان خود سوچنے کے قابل ہوسکیں اور کسی مسلم دشمن طاقت کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔ لیکن ایران اور سعودی عرب کی جنگ روکنے کے لیے جنرل باجوہ یا پاک فوج کیا کرے گی، کیا کرسکتی ہے ؟ مرحوم جنرل ضیاء الحق نے بھی ایران عراق جنگ رکوانے کی ذاتی کوشش کی تھی۔ خدا نہ کرے ایران اور سعودی عرب میں جنگ چھڑ گئی تو اسلامی فوجی اتحاد کا کردار کیا ہوگا جس کے سربراہ پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل ہیں۔ جنرل باجوہ بتا رہے ہیں کہ ابھی تو اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنس یا قواعد و ضوابط ) بھی طے نہیں ہوئے۔ مشرق وسطیٰ میں جو صورت حال نظر آرہی ہے اس کے پیش نظر پاکستان کو اسلامی فوج اتحاد سے نکل آنا چاہیے ورنہ غیر جانب داری متاثر ہوگی۔ یہ اسلامی فوجی اتحاد امریکی مفادات کے خلاف کچھ نہیں کرپائے گا۔ فیض آباد دھرنے میں ہونے والے معاہدے میں فوج کے کردار پر تنقید ہو رہی ہے۔ اس کا جواب بھی جنرل باجوہ نے دیا کہ ’’ فوجی افسر دستخط نہ کرتا تو دھرنا ختم نہ ہوتا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر دھرنے سے تعلق ثابت ہوا تو استعفا دے دوں گا۔ فوج نے عمران خان کے طویل دھرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ایسے معاملات سے سول حکومت کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے اور معاملات کو سنبھالنے میں سول حکومت کی ناکامی فوج کو آگے آنے کا موقع دیتی ہے اور ہر قسم کے دھرنے ختم کرانے کی دعوت دیتی ہے۔ بہرحال جنرل باجوہ بہت سے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے ایوان بالا میں گئے تھے اور اس میں کامیاب رہے چنانچہ سینیٹروں نے اعتراف کیا کہ خوف و خدشات دور ہوگئے، واضح ہوگیا کہ پاکستان جاندار جمہوریت ہے۔ یقیناًایسی جاندار جسے آرمی چیف کی یقین دہانیاں درکار ہیں۔