گجرات کے انتخابات: ہندوتوا کی ایک اور جیت؟

382

ہندوستان کی ریاست گجرات کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی گزشتہ دو مہینوں کی مہم کے دوران یہ راگ الاپا جارہا تھا کہ اس بار بھارتیا جنتا پارٹی اور کانگریس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا لیکن بالآخر جیت بھارتیا جنتا پارٹی کی ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔ نریندر مودی کی بھارتیا جنتا پارٹی نے 99نشستیں جیتی ہیں اور اس کے مقابلہ میں کانگریس 80نشستیں حاصل کر پائی ہے۔ یوں یہ گجرات میں مودی کی چھٹی انتخابی جیت ہے۔ نریندر مودی کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ’’وکِاس‘‘ (ترقی) کی فتح ہے۔ اول تو اسے فتح کہنا صحیح نہیں کیوں کہ گزشتہ انتخابات میں مودی کی پارٹی کو 115نشستیں ملی تھیں جو اب صرف 99 رہ گئی ہیں دوم عملی طور پر یہ انتخابات وکاس کی بنیاد پر نہیں لڑے گئے۔ ترقی کا انتخابی مہم کے دوران کوئی ذکر نہیں ہوا بلکہ نریندر مودی کی مہم کا تمام تر زور پاکستان اور مسلمانوں کے خوف پر رہا ہے۔ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں جب نریندر مودی نے دیکھا کہ ہوا کا رخ کانگریس کی سمت ہے تو انہوں نے دلی میں کانگریس کے معطل رہنما منی شنکر آئیر کے مکان پر اس عشایہ پر زبردست ہنگامہ برپا کیا جس میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری اور دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور دوسرے رہنما اور صحافی شریک تھے۔ نریندر مودی نے شور مچایا کہ اس دعوت میں انہیں گجرات میں ہرانے کی سازش رچی گئی تاکہ سونیا گاندھی کے سیکرٹری احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنایا جا سکے۔ مودی کا یہ الزام اس قدر مضحکہ خیز تھا کہ وہ من موہن سنگھ کی حب الوطنی پر شک کر رہے تھے جو دو بار ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اور من موہن سنگھ کو اس الزام پر اس قدر غصہ آیا کہ انہوں نے نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ معافی مانگیں۔ لیکن الزام کی گولی نکل چکی تھی اور بھارتیا جنتا پارٹی کے وفا دار میڈیا نے یہ الزام اس قدر مشتہر کیا کہ گجرات کے عوام کی اکثریت اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ انتخابات میں پاکستان کی سازش کے الزام کے ساتھ نریندر مودی نے اپنے حریف کانگریس کے صدر راہول گاندھی پر دو دھاری کاری وار کیا اور انہیں موجودہ ہندوستان کا اورنگ زیب قرار دیا۔ مودی کے اس وار کا مقصد ایک طرف ہندووں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اس آگ کو بھڑکانا تھا جو عام طور پر اورنگ زیب کے خلاف ہندووں میں سلگتی رہتی ہے دوسری جانب اس کا مقصد اپنے سیاسی حریف راہول گاندھی کو اورنگ زیب قرار دے کر مسلم نواز ثابت کرنا تھا۔ ہندوستان کے سنجیدہ افراد کا کہنا تھا کہ یہ الزام لگانا ہندوستان کے وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا تھا لیکن انتخابی مہم کا جوار بھاٹا چوں کہ کانگریس کے حق میں جارہا تھا اس لیے مودی نے گھبرا کر یہ حکمت عملی اختیار کی۔
گجرات کے انتخابات کی تاریخ کا تعین بھی بے حد معنی خیز تھا، یہ انتخابات عین بابری مسجد کی مسماری کی چوبیسویں برسی کے بعد ہوئے تاکہ ہندووں میں بابری مسجد کی مسماری کی یاد تازہ کی جائے اور ہندووں کے جذبات کو جوش دلایا جائے کہ اس مسجد کی مسماری کا سہرا بھارتیا جنتا پارٹی کے سر ہے۔
بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنماوں نے انتخابی مہم کے دوران گجرات کے ہندووں کو ڈرایا تھا کہ اگر کانگریس جیت گئی تو مسلمان ریاستی حکومت پر چھا جائیں گے اور گجرات کے 2002 کے مسلمانوں کے قتل عام کا ہندووں سے بھرپور انتقام لیں گے اور مسلمان ریاست میں غنڈہ گردی کریں گے جس میں ہندو خواتین محفوظ نہیں رہیں گی۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے وفا دار میڈیا نے جس میں زی نیوز، ٹائمز ناؤ، ری پبلک ٹی وی اور انڈیا ٹی وی پیش پیش تھے نہ صرف انتخابات میں پاکستان کی مداخلت کی سازش کے الزام بلکہ مسلمانوں کے انتقام کا خوف بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی۔ اس مہم کے پیچھے سرمایہ دار اڈوانی گروپ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے جسے گزشتہ جون میں مودی سرکار نے اسپیشل اکنامک زونز میں تبدیلی کے ذریعہ 500کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔
گجرات میں مسلمانوں کی تعداد 9فی صد سے زیادہ ہے لیکن ان انتخابات کی پوری مہم میں مسلمانوں کے ان مسائل کا قطعی کوئی ذکر نہیں کیا گیا جن کا وہ 2002 کے قتل عام کے بعد سے برابر سامنا کر رہے ہیں۔ کانگریس نے بھی عمداً مسلمانوں کی بہبودی کے مسائل کا کوئی ذکر نہیں کیا اس خوف سے کہ کہیں اس پر مسلمانوں کی حمایت کا الزام عائد نہ کیا جائے خاص طور پر نفرت کی اس فضا کے پیش نظر جو پچھلے پندرہ برس سے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں پر طاری ہے۔ اس ماحول میں کانگریس نے بھی بھارتیا جنتا پارٹی کے جوگی رنگ کی شال اوڑھ رکھی تھی۔
البتہ گجرات کے ان انتخابات کے دوران ہندوستان کی سیاست کا ایک اہم پہلو نوجوان دلتوں اور بائیں بازو کا اتحاد سامنے آیا ہے۔ اس اتحاد کی قیادت تین نوجوانوں، جگنیش میوانی، ہر دیک پٹیل اور الپیش ٹھاکرکے ہاتھ میں ہے۔ ان میں جگنیش میوانی پچھلے سال اس وقت سیاسی منظر عام پر آئے تھے جب گجرات میں گائے رکھشکوں (محافظوں) نے اونا کے مقام پر ایک گائے کو ہلاک کرنے کے الزام میں ان دلتوں کے گھر میں گھس کر جو مردہ گائیوں کی کھال اتارتے ہیں، سات دلت نوجوانوں کو باہر نکال کر مار مار کر ادھ موا کردیا تھا اور انہیں برہنہ کر کے 25 میل تک ان کا جلوس نکالا۔ ان میں سے دو دلت معذور ہو گئے تھے۔ اس سانحہ کے خلاف پورے گجرات میں دلتوں کے احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ دلتوں نے اس ظلم کے خلاف تحریک شروع کی اور ’’آزادی کی کوچ‘‘ کے نام سے ریاست میں مارچ نکالی۔ 36سالہ دلت وکیل جگنیش میوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھالی۔ آزادی کی کوچ کے دوران جگنیش میوانی نے نعرہ دیا ’’تم گائے کی دم رکھو، ہمیں ہماری زمین دو‘‘ اس مارچ کے دوران دلتوں نے یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ مردہ گائیوں کی نہ کھال اتاریں گے اور نہ انہیں اٹھائیں گے۔ جگنیش میوانی کے استاد مشہور وکیل مکل سنہا ہیں جنہوں نے 2002 کے مسلمانوں کے قتل عام کے بہت سے متاثریں کے مقدمات لڑے ہیں۔ مسلمانوں میں وہ مسیحا کے نام سے مشہور ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران جگنیش میوانی نے اس پر زور دیا تھا کہ دلتوں کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ فاشسٹ خطرے کا مقابلہ کیا جائے اور ہندوتوا کی قوتوں کو شکست دی جائے۔ اب اس کا امکان ہے کہ دلتوں بہو جن اور بائیں بازو کی تحریک کو فروغ حاصل ہو اور یہ صرف گجرات تک محدود نہ رہے بلکہ پورے ملک میں یہ اتحاد ابھرے جو بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے نیتا نریندر مودی کو للکار سکے، لیکن فی الحال ریاستی انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کی جیت کے بعد گجرات میں مسلمانوں کو خطرہ ہے کہ ہندوتوا کے حامیوں کے سینے پھول جائیں گے اور وہ نفرت کی فضا میں گھر جائیں گے۔ پہلے ہی مسلمان اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے پریشان ہیں، مودی کی پارٹی کی جیت کے بعد حالات اور زیادہ باعث تشویش ہوجائیں گے، اس وقت ملک میں ہندوتوا کی قوتیں جس تیزی سے مقبول ہورہی ہیں اس کے پیش نظر دو سال بعد ملک میں عام انتخابات میں بھی خطرہ ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کو جیت ہو اور ہندوتوا کا راج مضبوط ہو۔