رہے میانہ روی ہے یہی طریقہ عدل

349

بابا الف کے قلم سے

آصف علی زرداری کے بعد عمران خان دوسرے سیاست دان ہیں جنہیں مالی معاملات میں عدلیہ نے کلیئر قرار دیا ہے۔ عدالتی فیصلے بھی سگریٹ کی طرح ہوتے ہیں کبھی ہونٹوں سے لگائے جاتے ہیں کبھی قدموں تلے روند دیے جاتے ہیں۔ اس فیصلے سے ن لیگ کے حلقوں میں ایک طرف ہاہا کار مچ گئی تو دوسری طرف حدیبیہ پیپرملز کا معاملہ مسترد کیے جانے پر خوشی کے ڈھول پٹ گئے۔ جمعہ 15دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا جب کہ جہانگیر ترین کو لندن میں موجود اثاثے چھپانے اور عدالت عظمیٰ میں غلط بیانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نااہل قرار دیا گیا۔ اسی روز دوسری فل بنچ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کی نیب کی اپیل مستردکردی۔ ان فیصلوں سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں کو ریلیف ملا ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی نا اہلی کا صدمہ نہ جھیل پاتی دوسری طرف مسلم لیگ ن کے لیے حدیبیہ پیپر ملز ایسا ماضی ہے جسے وہ دفنانے کی شدید کوشش کے باوجود دفن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پارہی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ن لیگ کا یہ مردہ بحسن وخوبی گڑھے میں اتار دیا۔
رہے میانہ روی ہے یہی طریقہ عدل
جھکیں نہ صفر کی جانب نہ انتہا کی طرف
پاکستان میں اتنی جلدی لوگ صاحب دیوان نہیں بنتے جتنی سرعت سے صاحب کشف ہو جاتے ہیں۔ 2013ء میں انتخابی نتائج ابھی دس فی صد بھی حتمی طور پر سامنے نہیں آئے تھے کہ سوا نو بجے نوازشریف کو کشف ہوگیا اور انہوں نے فتح کا اعلان کردیا تھا۔ جمعہ کے روز عمران کی اہلیت کا فیصلہ تین بجے کے بعد سامنے آیا۔ عدل کو ایک گھنٹے طویل سہو قلم ہوگیا تھا۔ لیکن وقت سے پہلے ہی ’’نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو‘‘۔ شنید ہے بارہ بجے ہی سے تحریک انصاف کے کارکنان نے مٹھائی سے انصاف کرنا شروع کردیا تھا۔ عمران خان ایک دن پہلے ہی سے مطمئن نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ ہم نے اس عقدے پرغور شروع کیا تو ایک رکشہ کے پیچھے لکھی یہ لائن نظر میں گھوم گئی ’’یہ نظر میرے پیرکی‘‘۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے ججوں پر دباؤ ڈالنے والا پیدا ہوا نہ ہوگا۔ جج کسی پلان کا حصہ ہیں نہ سازش کا۔ جو محترم جج صاحبان یہ طرز عمل شعار کرتے ہیں ان کا مقام، ان کا مرتبہ اللہ اللہ۔ ایک حکایت سن لیجیے:
بنی اسرائیل کے ایک قاضی کا آخری وقت تھا۔ انہوں نے وصیت کی کہ: ’’میرے مرنے کے بعد میری قبر کو کھول کر دیکھا جائے۔ میں نے سنا ہے انصاف کرنے والے قاضی کے بدن کو مٹی نہیں کھاتی۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی۔ کئی مرتبہ مجھے بھاری رشوت کی پیش کش کی گئی۔ میں نے حقارت سے ٹھکرادی۔ صاحبان اختیار واقتدار نے بارہا مجھے دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ میں کسی کے دباؤ میں آیا اور نہ کبھی انصاف کرتے وقت میرے قلم میں لغزش آئی۔ میں نے ہمیشہ عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو پیش نظر رکھا۔ اس معاملے میں کبھی غریب امیر، حاکم محکوم کے فرق کو خاطر میں نہیں لایا۔ ہاں اتنا یاد ہے ایک مرتبہ ایک عزیز کسی مقدمے میں پیش ہوئے تو فریق مخالف کے مقابلے میں اس کی بات ذرا زیادہ کان لگا کر سن لی تھی۔ اس کے علاہ مجھے یاد نہیں میں نے کبھی کوئی نا انصافی کی ہو‘‘۔ کچھ دن بعد قاضی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ کئی مہینے بعد قاضی صاحب کی وصیت کے مطابق ان کی قبر کھولی گئی۔ پوری قبر خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ قاضی صاحب کی میت ایسی تروتازہ تھی جیسے ابھی ابھی دفن کی گئی ہو البتہ دایاں کان مٹی نے کھالیا تھا۔
کوچہ سیاست وہ مقام ہے جس میں داخل ہونا بہت آسان ہے لیکن نکلنا بہت مشکل۔ یہ کوئے ملامت سبھی کو راس آتا ہے۔ نواز شریف پر عرصے سے یہ الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقم بھیج کر لندن میں فلیٹ خریدے ہیں۔ اس اعتراض کے جواب میں نواز شریف جھوٹ کا جھاڑ جھنکاڑ بڑی بے ترتیبی سے ترتیب دینے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں تک کہاں گیا کہ دونوں صاحبزادے یہاں کرائے پر رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے قدرت نے نواز شریف کے جھوٹ کے اس کارخانے میں پاناما کا دخل دے دیا۔ پہلی بار ثابت ہوا کہ جائداد نواز شریف کے حسن، حسین کی ملکیت ہے۔ اب سوال اٹھا کہ چلیے تسلیم جائداد بچوں کے نام ہے لیکن ان کے پاس اتنی خطیر رقم کہاں سے آئی۔ اگر یہ رقم پاکستان سے بھیجی گئی ہے تو اس ترسیل زر کا ریکارڈ تو بینکوں کے پاس ہوگا۔ اس پر موقف یہ اختیا ر کیا گیا کہ رقم پاکستان سے نہیں بھیجی گئی۔ جدہ میں اسٹیل مل بیچ کر ادائیگی کی گئی۔ عدالت اس جواب سے مسحور ہونے کے بجائے کج بحثی پر اتر آئی اور سوال داغ دیا کہ حضور جدہ اسٹیل مل کہاں سے وجود میں آگئی۔ اس کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ اس پر گلف مل اور قطری شہزادے کا کردار تخلیق کیا گیا۔ قطری شہزادے نے رنگ برنگے جھوٹ کی اس ناؤ کا کھیون ہار بننے سے انکار کردیا یوں کاغذ کی یہ کشتی ڈوبتی چلی گئی۔ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان پر جائداد کی ترسیل زر ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔ ترسیل زر کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنی تو کیبلری فونٹ کی جعلسازی گھبراہٹ کے عالم میں باہر آگئی۔ جہاں تک بیٹے کی کمپنی میں ملازمت، تنخواہ اور اقامے کا تعلق ہے تو معاملہ یوں ہے کہ امارات کے قانون کے مطابق ملازم کی تنخواہ آن لائن اس کے اکاؤنٹ میں چلی جاتی ہے۔ وہ وصول کرے یا نہ کرے اس کی مرضی لیکن یہ اس کا اثاثہ ہوتی ہے۔ یہ اثاثہ نواز شریف نے اپنے کاغذات میں ظاہر نہیں کیا۔ جھوٹے ثابت ہوگئے۔ صادق اور امین نہ رہے۔ ماہی بے آب ہوکر رہ گئے۔
عمران خان کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہ پاکستان سے باہر لے جانے کے بجائے رقم پاکستان لائے تھے۔ بنی گالا کی جائداد کی خریداری کے لیے۔ اس پر بھی لندن سے پاکستان تر سیل زر کا سوال اٹھا۔ عمران خان کا موقف تھا کہ انہوں نے اپنی پہلی بیوی جمائما سے پیسے ادھار لے کر بنی گالا کے جنگل میں منگل منایا ہے اور بعد میں لندن کا فلیٹ بیچ کر جمائما کو رقم واپس کردی۔ خوش قسمتی سے اللہ اور جمائما کے تعاون سے بیس سال پہلے کی ٹرانزیکشن کے کاغذات بھی مل گئے۔ عمران خان صادق اور امین قرار پائے اور انہیں اس بات کی اجازت مل گئی کہ پاکستان کے کوچہ سیاست میں:
بالوں کو بکھرائیں کپڑے بگاڑیں
مٹی میں دبے ہنستے پتھر اکھاڑیں
جی چاہے چیخ پڑیں
دوڑیں اور دھاڑیں
نواز شریف نے اپنے مخالف عدالتی فیصلے پر مہم چلانے کا اعلان کیا تو عمران خان نے دھاڑ کر بھی دکھا دیا۔ اہلی اور نااہلی کے ان فیصلوں کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل 62 اور 63 کے نفاذ کا عملی پہلو سامنے آیا ورنہ یہ کہا جاتا تھا کہ اس تعریف پر تو صرف رسالت مآب ؐ ہی پورا اتر سکتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے ’’سیاسی گند عدالت عظمیٰ کی لانڈری سے نکل جائے تو عام آدمی کے مقدمات کو بھی وقت دینا ہے۔‘‘ جسٹس صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ ہمیں ایسے وعدے کرنے سے خوف آتا ہے جن کی تکمیل نہ کرسکیں۔ اس کرپٹ سسٹم میں غریب کو انصاف ملنا اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے مترادف ہے۔
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)