عسکری قیادت کی پارلیمنٹ آمد !

366

قوم تو نہیں البتہ قوم کے نمائندے منگل سے بہت خوش ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی سے خطاب کیا اور اپنی یا پاک آرمی کی پالیسی سے متعلق بریفنگ دی۔ متعدد سینیٹرز نے آرمی چیف کی سینیٹ میں آمد کو تاریخی دن سے منسوب کیا۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی پارلیمنٹ میں آمد سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان بڑی خلیج دور ہوگئی۔ قائد ایوان راجا ظفر الحق نے کہا کہ وہ بریفنگ سے مکمل مطمئن ہیں، ثابت ہوگیا کہ سول اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ آرمی چیف کا یہ دورہ اس بات عندیہ دے رہا ہے کہ پارلیمنٹ ہی سب سے اہم ہے۔
جنرل باجوہ کے اپنے فور اسٹار جرنیلوں کے ہمراہ سینیٹ سے خطاب کے بعد ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک کا کوئی بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے اپنے اس عمل سے ملک کے جمہوری نظام کو شکوک و شبہات سے مبرا قرار دے دیا ہے اور تمام ذمے داری ’’جمہوریت اور جمہوری حکومت‘‘ پر ڈال دی ہے۔ جنرل باجوہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ پہنچ کر یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ہمیشہ ہی سے اپنے آپ کو اور فوج کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ سمجھتے رہے ہیں۔
فوج کے بارے میں اب تک شکوک و شبہات تو ان سیاست دانوں ہی نے پیدا کیے۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی باز گشت بھی اسی کا تسلسل ہے۔ ان ہی سیاسی کھلاڑیوں کے روپ میں موجود بڑے فنکار نے ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی دیکر بھی عوام کو فوج سے دور کرنے کی کوشش کی تھی۔
دنیا بھر میں فوج کی علیحدہ حیثیت ہے، وہ نا تو پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت کو مگر پھر بھی دنیا کے بیش تر جمہوری ملکوں میں فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ درپردہ اس کی پالیسیوں کی حمایت بھی کی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس کی خفیہ ایجنسی را آزادانہ کام کرتی ہے اس کے امور میں پارلیمنٹ کو بھی مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ فی الحال یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آرمی چیف اور فور اسٹار جرنیلوں کو اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بٹھاکر کیا مقاصد حاصل کیے گئے؟ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آرمی نے پارلیمنٹ میں پہنچ کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک اور قوم سے مخلص ہے وہ کسی انا پرستی کا شکار بھی نہیں ہے۔ اس کا اصل مقصد ملک و قوم کی حفاظت کرنا اور ان کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا کہ ’’جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں ہے، فوج اپنی آئین حدود میں رہ کر کام کررہی ہے اور کوئی کام آئینی سے ماورا نہیں ہوگا‘‘۔ جنرل باجوہ نے واضح الفاظ میں یہ بھی کہا کہ ’’پارلیمنٹ دفاع اور خارجہ پالیسی بنائے، ہم اس پر عمل درآمد کرائیں گے‘‘۔
فوج سے یقیناًماضی میں غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری فوج کو آزادانہ کام کرنے سے روک دیا جائے اور ان لوگوں کے ماتحت کردیا جائے جو لوگوں پر مختلف قسم کے دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ جن کا اسمبلیوں میں جانے کا مقصد صرف اپنے مفادات کا حصول اور تحفظ ہے۔
جرنیلوں پر ملک کو دو لخت کرنے کا الزام ہے اور درست ہے لیکن یہ بات بھی تو سچ ہے کہ سیاست دانوں کا ملک کے ساتھ جو رویہ ہے وہ slow poison دینے کے مترادف ہے۔ ملک میں را کے ایجنٹوں کی موجودگی کے شواہد ملنے کے باوجود ایک عرصے تک ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کے بجائے ان کی پشت پناہی یہی سیاست دان کرتے رہے۔ سیاسی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے سپہ سالار کو یہ کہنا پڑا کہ ’’پارلیمنٹ خارجہ اور دفاعی پالیسی بنائے ہم اس پر عمل درآمد کرائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ جن سیاست دانوں کو آرمی چیف کی جانب سے خارجہ اور دفاعی پالیسی بنانے کی ’’ڈکٹیشن‘‘ دی جائے کیا وہ اس قابل ہیں کہ ملک کا نظام مکمل طور پر ان کے حوالے کردیا جائے؟ یہ سوال نہیں ایک فکر ہے۔ کیا اس طرح کے تفکرات سے پارلیمنٹ قوم کو نجات دلائے گی؟