اور اب سینیٹ لیکس

270

پاکستان میں تاریخ رقم ہوگئی یا تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن پاکستانی فوج سیاسی میدان میں ہر طرح زیر بحث اور زیر غور ہے۔ کبھی اسپیکر قومی اسمبلی کہہ جاتے ہیں کہ جمہوری نظام کو خطرہ ہے کچھ ہونے والا ہے۔ کبھی وزیراعظم اور وزیرداخلہ انتخابات بروقت ہونے کا یقین دلاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر پاک فوج کے سربراہ سینیٹ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں بریفنگ دینے پہنچ گئے اور تمام سیاسی امور پر آرمی چیف کی گفتگو اخبارات کی زینت بن گئی۔ اس تفصیلی بریفنگ کے کیا کہنے۔ بریفنگ تو مختصر ہونی چاہیے تھی تفصیلی کیسے ہوگئی لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے بات ہی اتنی اعلیٰ سطح کی ہے اس لیے اس پر کیا بریف کریں۔ اگر اس پورے بیان یا بریفنگ کے ان مندرجات پر نظر ڈالیں جو بند کمرے میں ہوئی اور ساری دنیا میں پھیل گئی تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ کسی سیاستدان کی گفتگو ہے۔ اس سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف اب پوری طرح تیار ہوچکے ہیں اور کوئی نیا آپشن سامنے آنے والا ہے۔ پہلی اور اہم ترین بات یہ سامنے آئی ہے کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ سیاستدان فوج کو موقع نہ دیں۔ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے آئین سے ماورا کردار کی خواہش نہیں۔ فوج آئینی حدود کے اندر کام کررہی ہے، دھرنے سے تعلق ثابت ہوا تو استعفا دے دوں گا۔ فوجی افسر دستخط نہ کرتا تو دھرنا ختم نہ ہوتا اور بھی بہت کچھ سامنے آیا ہے، اور اگلے دن وہ بھی ہوگیا جس کی کم از کم ہمیں ضرور توقع تھی۔ ہمیں بند کمرے کے اجلاس کی ایک ایک خبر لیک ہونے کا یقین تھا اور اگلے دن اس سینیٹری لیک پر چیئرمین سینیٹ ضرور برہمی کا اظہار کریں گے۔ سو، انہوں کردیا۔ بلکہ ارکان کو استحقاق مجروح کرنے کا ذمے دار قرار دے دیا اور لیکس کے ذمے دار سینیٹرز کو طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن ذمے داروں کا تعین کیسے ہوگا۔ ڈان لیکس میں بھی گھٹالا بن گیا، اصل ذمے دار کا پتا نہیں چل سکا۔ کون سا سینیٹر کہے گا کہ میں نے خبر لیک کردی۔ اب ایک دو اخبارات تو تھے نہیں ایسا لگتا ہے کہ سینیٹ کے اندر اور دوسری جانب سے بھی اس خبر کے پھیلانے میں بھی دلچسپی لی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ چیئرمین سینیٹ اجلاس سے پہلے بھی ارکان کو بتا چکے تھے کہ بند کمرے کے اجلاس کی کارروائی کے افشا سے ارکان کو رولز 250 اور 253 روکتے ہیں ان رولز کے تحت ارکان پارلیمنٹ بند کمرے کے اجلاس کی کارروائی کو افشا نہیں کرسکتے۔ البتہ جن سینیٹرز نے ٹاک شوز میں اجلاس کی کارروائی کے بارے میں گفتگو کی وہ ضرور ضابطے کی کارروائی میں آسکتے ہیں۔ لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس مرتبہ کچھ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ دونوں طرف سے خواہش لگتی تھی۔
اس سے قطع نظر کہ خبر کیسے، کیوں اور کس نے لیک کی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ سیاستدان فوج کو موقع نہ دیں تو کیا فوج موقع کی تلاش میں تھی۔ اس حوالے سے آرمی چیف کچھ زیادہ کہہ گئے۔ اگر فوج کو موقع مل بھی رہا ہو تو بھی فوج کو اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ بہرحال یہ ہے تو سیاستدانوں کی ذمے داری کہ فوج کو موقع نہ دیں۔ اب اس عقدے سے بھی پتا نہیں کب پردہ ہٹے گا کہ سینیٹ کے اجلاس کی لیکس بھی فوج کو موقع دینے کی نیت سے کی گئی ہیں یا بس میڈیا سے اچھے تعلقات کی خواہش لے ڈوبی۔ تاہم یہ بھی اہم ہے کہ تقریباً تمام ہی اخبارات نے ایک جیسی رپورٹنگ کی ہے، جو واضح کررہی ہے کہ خبر لیک کرنے والوں کا مقصد اور منبع ایک ہی ہے۔ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے، اس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ آئین سے ماورا کسی کردار کی خواہش نہیں، فوج آئینی حدود کے اندر کام کررہی ہے، بات یہ بھی بڑی اچھی ہے لیکن کسی دھرنے میں فوجی افسر کے دستخط کے بغیر اس کا خاتمہ ہونا اس کی آئینی حیثیت بھی تلاش کرلی جائے تو بہتر ہوگا۔ اس دھرنے کے حوالے سے آرمی چیف نے تعلق ثابت ہونے پر استعفا دینے کی پیش کش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تعلق ثابت کون کرے گا۔ اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے جو شائع ہوا ہے وہ بھی عجیب ہے کہ فوج تیار ہوگئی ہے، سربراہ کا تقرر ہوگیا ہے اور اسلامی فوج کے ٹی او آرز ابھی طے نہیں ہوئے ہیں۔ چھوٹی سی کمپنی بھی بنائی جاتی ہے تو پہلے ٹی او آرز بنتے ہیں یہ کیسا اتحاد اور کیسی فوج بنی ہے کیسے کام کرے گی، البتہ یہ خوش آئند بات بھی سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب ایران پر حملہ نہیں کرے گا۔ ایک اور اہم بات جس پر یقین کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ٹی وی پر ٹاک شوز میں آنے والے ریٹائرڈ فوجی فوج کے ترجمان نہیں ہیں۔ ویسے وہ لوگ خود کو فوج کا ترجمان تو نہیں کہتے تھے لیکن پورے میڈیا میں یہی تاثر تھا کہ ان کو فوج نے میڈیا پر بھیجا ہے۔ اب کم از کم ان پر تنقید تو کی جاسکے گی۔ سینیٹ لیکس اور اس پر چیئرمین سینیٹ کی برہمی کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے ایک بات کہی ہے کہ جمہوری عمل ہی بہترین آپشن ہے۔ یہاں بھی یہ سوال ہے کہ یہ باتیں کہنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ جب کہ مدت تو تقریباً پوری کرہی لی ہے اور یہ کہ فوج آئین سے ماورا کردار ادا نہیں کرنا چاہتی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی جمہوریت ہی کو آخری آپشن قرار دے رہے ہیں تو کیا جمہوریت کے خلاف کوئی ہلچل ہے کچھ ہونے جارہا ہے۔ اس کے لیے بقول استاد محترم فقیر محمد نذیر دیکھیے سنیے اور انتظار کیجیے۔