جنرل جمہوریت کے رُوبرُو

304

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے ایوان بالا سینیٹ میں آئے تو یوں لگا کہ پاکستان ایک انقلاب سے آشنا ہوا ہے۔ سویلین بالادستی کی کتاب کا ایک نیا باب شروع ہورہا ہے۔ فوج پہلی بار منتخب سیاسی قیادت کو اپنے دفاعی اور تزویراتی رازوں کے خزانے میں شریک کررہی ہو۔ حقیقت میں یہ کوئی انقلاب نہیں، نہ سویلین اور ملٹری بالادستی کے کھیل کا کوئی داؤ پیچ ہے۔ فوج پارلیمنٹ، عدلیہ سب اس ملک میں آئین کے تحت قائم ادارے ہیں۔ سب کے لیے کھیل کے قواعد اور دائرے آئین نے متعین کر رکھے ہیں۔ آئین کے تحت کام کرنا جہاں فوج کی ذمے داری ہے وہیں حکومت، پارلیمنٹ اور ان کی ماں یعنی سیاسی جماعتیں بھی آئین کے تقاضوں پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔ آئین کھیل کے ضوابط کا نام ہے اور ضوابط پر عمل کرنا ہر فریق کی ذمے داری ہے۔ فوج سے تو گلہ ہے کہ جب کشمکش بڑھ جائے تو فوجی حکمران نظریہ ضرورت اور ملکی مفاد کی آڑ لیتے ہوئے آئین کی کتاب ہی کو اُٹھا کر طاق میں رکھ دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آئین کے تقاضوں کو من وعن پورا کرنے کے لیے جب سیاست دانوں کی باری آتی ہے تو وہ عوام، جمہوریت اور مینڈیٹ جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپتے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی ارکان سینیٹ کو بریفنگ کی اصل تفصیلات تو آئی ایس پی آر کے ذریعے کچھ دن بعد سامنے آئیں گی مگر جو کچھ اب تک سامنے آیا ہے اس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے عملی طور پر خود کو پاکستان کے سب سے بالادست ایوان کے سامنے پیش کیا ہے۔ انہوں نے ارکان سینیٹ کو یقین دہانی کرائی کہ فوج جمہوریت کے ساتھ اور آئین کی پابند ہے۔ پارلیمنٹ پالیسی بنائے فوج اسے لے کر آگے چلے گی۔ انہوں نے دھرنے میں فوج کے کردار کی نفی کرتے ہوئے یہ کردار ثابت ہونے کی صورت میں مستعفی ہونے کی پیشکش کی۔ اس سے کچھ دن پہلے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے سربراہ اپنا مقدمہ پاکستانی عوام کی عدالت میں پیش کر چکے ہیں وہ ملک میں سازشوں اور گرینڈ پلان کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے آئین کے ساتھ کھڑے ہونے کی دوٹوک بات کر چکے تھے۔ ملک کے دو اہم اداروں کے سربراہوں کی طرف سے جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار بتا رہا ہے کہ پاکستان میں ایک نئی صبح کے طلوع کے آثار ہیں۔ پاکستان اپنی قومی ہی نہیں عالمی تاریخ کے سنگم پر کھڑا ہے۔ ایک عہدِ کہن اپنے انجام کو پہنچ رہا اور ایک نیا عہد تشکیل کے مرحلے میں ہے۔ نیا عہد نئی ضرورتوں اور قدروں کے ساتھ جلوہ گر ہوگا۔
پاکستان نے اپنے ستر برس گزارے نہیں بلکہ گھسیٹے ہیں۔ قطعی غیر موافق عالمی فضاء، ہر دم آماد�ۂ فساد ہمسائے اور اندر کا کمزور سے کمزور تر ہوتا ہوا تانا بانا اسے حالات کی موجوں پر ڈولتی ہوئی ناؤ بنائے رہا۔ یہاں تک یہ کشتی مشرقی پاکستان کے سانحے کی صورت میں شکستہ ہو کر رہ گئی۔ اس شکست وریخت کے بعد تو یہ بھنور میں تیرتی آدھی کشتی کا کھیل ہی رہا۔ عالمی طاقتوں نے یہ انتظام کر رکھا جب بھی نئے زمانوں اور نئے تقاضوں کے تحت اس ملک کو قطع وبرید کرنے کی ضرورت پیش تو کام بہ آسانی انجام دیا جا سکے۔ آج وہ لمحہ آن پہنچا ہے مگر پاکستان اس ’’ضرورت‘‘ کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھنے سے انکاری ہے۔ پاکستان کے پاس بقا کے دو راستے اور دو آپشن ہی باقی رکھ چھوڑے گئے تھے۔ اس ملک نے اپنے چراغ کی لو اس قدر نہیں بڑھانی کہ بھارت کے سورج کی چمک ماند پڑے اگر یہ نہیں تو پھر پاکستان کو مزید قطع وبرید کرکے اس مقام تک لایا جائے کہ بھارت کے مقابلے اور ہم سری کے قابل ہی نہ رہے۔ مغربی تھنک ٹینکس کی الماریوں میں تیار نقشے دور کی کوڑی نہیں اسی دن کے لیے تھے۔ پاکستان نے اپنے لیے یہ دونوں عنایتیں جھٹک دیں اور خود اپنی بنیاد پر کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا اور اس کے موجودہ حالات اسی فیصلے کا عتاب ہیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا دوراہا ہے۔ یہاں ایک راستہ پرانی منزل کو نکلتا ہے کہ پاکستان یونہی حالات کی تنی ہوئی رسی پر ڈولتا اور ڈگمگاتا چلا جائے۔ ایک طرف سے دباؤ آئے تو اس جانب مڑ جائے دوسری جانب سے ترغیب و تحریص آئے تو رال ٹپکنے لگے۔ جس طرف سے امداد کی امید نظر آئی اسی جانب لپک پڑے۔ گویا ملک نہ ہو نظریہ ضرورت کا چلتا پھرتا اشتہار ہو، جس میں دس برس سیاست دانوں کی حکومت اور دس برس جرنیل شاہی کے لیے مختص ہوں اور یوں اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل ماضی کی طرح چلتا رہے۔ یہ وہ دوراہا ہے جس میں ترکی مغربی طاقتوں کی شہ پر ہونے والی بغاوت کے وقت کھڑا تھا اور ترکی نے مجموعی طور پر اپنے لیے ایک راستے کا انتخاب کرلیا۔ یہ وہ دوراہا ہے جہاں سرد جنگ کے خاتمے کے چند سال بعد تک بھارت کھڑا رہا اور پھر گومگوں کی کیفیت ختم کرکے ایک راہ کی جانب چل نکلا۔ پاکستان اس ماہ وسال کے دوران ’’غریب کی جورو، سب کی بھابھی‘‘ بنا رہا۔ زورا زوری میں اس کا حلیہ بگڑتے بگڑتے بچ گیا۔ مغربی طاقتوں نے یہ تاثر دیا کہ فوج سخت گیر اور جہادی اثرات کے زیر اثر اینٹی امریکن ازم کا شکار ہے جب کہ سویلین قیادت مغرب کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور پاکستان کو اسی راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سویلین قیادت کو ہلہ شیری دے کر فوج سے بھڑانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ دوراہا دہائیوں اور کبھی صدیوں بعد قوموں اور ملکوں کو درپیش ہوتا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا سینیٹرز کے حضور پیش ہونا اور ان کی ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب دینا اور خدشات کو دور کرنا انقلاب نہیں محض اس بات کا اشارہ ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں فوج جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی وراثت سے ناتا توڑناکر نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کرنا چاہتی ہے۔ اس دور میں داخل ہونے کے لیے بدلی ہوئی سیاست بھی درکار ہے۔ بدلی ہوئی سیاسی جماعتیں اور شخصیات کی بھی ضرورت ہے۔ جمہوریت سے وابستہ اصطلاحات کے پیچھے چھپنا مسائل کا حل نہیں رہا۔ سیاست دان اس باریک نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس ملک کے حکمران طبقات کی دولت کے انبار مغربی ملکوں میں لگے ہوئے ہوں وہ ملک آزادی سے اپنی راہ عمل متعین نہیں کر سکتے۔