غزالہ عزیز
کوئی خوشی خوشی ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ آپ سے یہ کہے کہ اس کا جیل جانے کا پہلا تجربہ بہت خوش گوار تھا۔ تو آپ پہلے تو حیرت سے منہ کھول کر اُس کی طرف دیکھیں گے پھر اُس کے خوش بشاش چہرے کو دیکھ کر اُس کی ذہنی حالت کے بارے میں آپ کے دل میں شک و شبہ پیدا ہوگا۔ پھر تیسرے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے دل میں اُس کے چال چلن پر شبہ پیدا ہو اور چوتھے نمبر پر آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے فاصلے پر رہنا بہتر ہے۔
لیکن ان سب خدشات کے باوجود میں آپ سے یہی کہوں گی کہ میرا پہلی دفعہ جیل جانے کا تجربہ بہت خوش گوار تھا۔ سچ بتاؤں کہ رات میں جب مجھے اس بارے میں اطلاع دی گئی تو میں کوشش کے باوجود اپنے وقت پر سونے میں ناکام رہی۔ دیر تک سوچتی رہی، وہاں کیسا ماحول ہوگا؟ وہاں جانے والے‘ رہنے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ وہ وہاں کیسے سوپاتے ہیں؟ اپنے گھر والوں سے دور، ایک اجنبی ماحول میں، خاص طور سے بچے؟؟
آپ بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ یہ بچے کہاں سے آگئے دراصل ہمیں بچوں کی اصلاحی جیل میں ول فورم کی طرف سے آنے کی دعوت دی گئی تھی جہاں وویمن اسلامک لائرز فورم (wil form) کی طرف سے کرائے جانے والے کمپیوٹر کورس میں کامیاب نوخیز و نوجوان لڑکوں کو سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جانے تھے۔ ہشاش بشاش اور خوش خوش چہرے کی جو بات شروع میں کی تو وہ دراصل ادارے کی کارکردگی اور وہاں کے بچوں کی کامیابی اور جذبہ کو دیکھ کر ہی پیدا ہوئی تھی۔ کیسے پُرخلوص اور ایثار پیشہ لوگ ہیں جو اپنا وقت، مال، قوتیں اور قابلیتیں ایسی جانفشانی سے، بے غرض سے معاشرے کے اِن پسے ہوئے لوگوں کے لیے لگا ڈالتے ہیں جن سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ نہ حاصل ہونے کی اُمید ہے۔!!!
یہ بے غرض انداز پیدا ہی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو لوگوں سے نہیں صرف اپنے ربّ سے اُمید لگاتے ہیں جو دُنیا پر نہیں آخرت پر نظر رکھتے ہیں۔ اور صرف اپنے ربّ سے اپنے اجر کے امیدوار ہوتے ہیں۔ یوں تو معاشرے میں بے غرض لوگوں کی کمی نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان فلاحی اخراجات یعنی چیئریٹی میں پوری دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن سب سے نمایاں نام جماعت اسلامی کا ہے جو باقاعدہ ایک نظام کے تحت لوگوں کی تربیت کرتی ہے۔ پھر مختلف شعبوں میں انہیں عملی میدان فراہم کرتی ہے۔ ان کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کی پشت پناہی کرتی ہے، چیک اینڈ بیلنس کے متوازن نظام کے ساتھ معاشرے کے ایسے ایسے مقامات پر اصلاحی کام کرتی ہے جہاں اصل میں کام حکومتوں کے کرنے کا ہوتا ہے۔ لیکن حکومتیں کرنے والی جماعتیں تو اُس ایک کے لاکھ بنانے کے چکر میں رہتی ہیں جو وہ الیکشن لڑنے پر خرچ کرتے ہیں۔ انہیں نہ صرف اخراجات سے ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ مال بنانا ہوتا ہے بلکہ آئندہ الیکشن کے لیے اپنے اخراجات کا تخمینہ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں بھی انہیں اپنی سیٹ اپنے حلقے کے اخراجات ہی پر لڑنا ہوتا ہے سو، حکومت میں آکر انہیں عوام کی فلاح اور خدمت کا خیال نہیں آتا بلکہ اپنے بینک بیلنس اور جائداد کی گنتی ہی بڑھانی ہوتی ہے۔ چھوٹے گھروں میں رہنے والے بنگلوں میں آجاتے ہیں، بائیک پر بیٹھنے والے لینڈ کروزر اور پجیرو سے کم کا نہیں سوچتے بلکہ ایک نہیں درجنوں بنگلے اور گاڑیاں بنالیتے ہیں اور غریب عوام اُسی پانی، بجلی اور دو وقت کی روٹی میں اُلجھے رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں بھلا جیلوں میں سڑنے والے لوگوں کے بارے میں کون سوچتا اور بات کرتا ہے حالاں کہ بچوں کی جیل کے باہر بورڈ پر اصلاحی اور انڈسٹریل کا لاحقہ لگا ہوا تھا۔ لیکن ہنر، دین کی سمجھ اور جدید علم سے آگاہی کا خیال جماعت اسلامی کے شعبے ول فورم کو آتا ہے وہ وہاں باقاعدہ کمپیوٹر فراہم کرتی ہے، اساتذہ کا انتظام کرتی ہے، قرآن کی کلاسیں اور ہنر سکھانے کا اہتمام کرتی ہے تا کہ یہ نوجوان جو کسی گناہ یا ناکردہ گناہ کی پاداش میں یہاں ہیں وہ واپس آکر معاشرے کا ایک باشعور اور کار آمد فرد بن سکیں۔ وہاں جیل کے طویل ہال میں چودہ پندرہ سے لے کر سترہ اٹھارہ سال تک کے بچے موجود تھے، جن کے چہرے معصوم اور آنکھیں اُمید کے جگنوؤں سے جگمگا رہی تھیں، جس بچے سے بھی بات کی اس کو چھ آٹھ ماہ سے زائد ہی ہوگئے تھے لیکن ان کے مقدمات پینڈنگ میں تھے۔ یعنی عدالت میں آنے کے منتظر تھے، ابھی ان پر کوئی جرم ثابت ہوا تھا نہ ان کی ضمانت کا کوئی سلسلہ تھا۔ ابھی تو بس وہ یوں ہی، ایسے ہی، سرکار کی قید میں ڈال دیے گئے۔ بغیر کسی جرم کے یہ عرصہ انہیں ایسے ہی گزارنا تھا۔ حالاں کہ یہ پڑھنے کی، آگے بڑھنے کی عمر تھی، خواب دیکھنے اور خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے کوششیں کرنے کی عمر تھی، جو بس ایسے ہی ضائع ہورہی تھی۔ جماعت اسلامی کے شعبے ول فورم نے اُن کے لیے سوچا اور عملی انداز اختیار کیا، سو ابتدا میں جو جیل کے خوش گوار تجربے کا ذِکر کیا تو وہ یہی بات تھی کہ میرے لیے اتنا خالص خدمت کا جذبہ رکھنے والوں سے ملنا ان کی کوششوں کا حصہ بننا ایک اعزاز تھا۔ چند اور صحافی بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ ذیبسٹ لائرز یونی ورسٹی کے طلب علم بھی مدعو تھے۔ یعنی مستقبل کے وکیل، جنہوں نے جیل کے اندھیروں میں علم و آگاہی پھیلانے کی ان کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کچھ اپنے حصے کی ادائیگی کا عزم کیا۔ خدا کرے کہ ہماری حکومت ان کوششوں سے سبق سیکھے اور عوام حکومت اور حکومت کے خزانوں کے بغیر خدمت اور فلاح کی ایسی زبردست کوششیں کرنے والی جماعت کو حکومت میں لانے کے لیے سنجیدہ انداز میں سوچے، عملی طور پر آگے بڑھے، ذرا کھلے ذہن کے ساتھ یہ سوچ کر کہ وہ جماعت جو بغیر کسی سرکاری اعانت کے یوں خدمت کے کام کرتی ہے اگر وہ حکومت میں آجائے تو پھر وہ اپنی ذمے داری کیسی لگن سے پوری کرے گی کہ امانت، دیانت اور صداقت جس کا موٹو ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس پر مہر لگا رکھی ہے۔