بے حس عالمی ضمیر کی جھرجھری

400

عارف بہار
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے فیصلے کو واپس لینے کے حق میں قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر دی ہے۔ قرارداد کی منظوری کے حق میں فیصلہ دینے والوں میں جنرل اسمبلی کے چار مستقل ارکان برطانیہ، فرانس، چین اور روس بھی شامل ہیں جبکہ امریکا نے ویٹو کا حق استعمال کرکے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور نہیں ہونے دی تھی۔ جنرل اسمبلی میں امریکا چوں کہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا اس لیے وہ قرارداد کو منظوری سے نہ روک سکا۔ نتائج کے مطابق قرارداد کے حق میں 128 جب کہ مخالفت میں نو ووٹ آئے اور 35 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جن نو ارکان نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا ان میں امریکا اور اسرائیل کے سوا کوئی تیسرا قابل ذکر ملک نہیں۔ ان میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کا نام بھی بہت سوں نے پہلی بار سنا ہوگا۔ اس طرح نو اور 128کے نتائج اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ دنیا اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہ کہ سردجنگ کے بعد یونی پولر دنیا کا منظر نامہ اب تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے اقوام متحدہ اور دنیا کے زندہ ضمیر انسانوں کو ایک امتحان گاہ میں لاکھڑ ا کیا تھا۔ عملی طور پر اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی اور اس کا مطلب فلسطینی عوام کو ایک بار پھر مایوس کرکے آماد�ۂ جدوجہد کرنا تھا۔ امریکا کے اس فیصلے کے خلاف دنیا بھر میں ردعمل ہوا اور مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے ایک اہم سربراہ اجلاس منعقد کرکے امریکا کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔ اب یہی مقدمہ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں پہنچا تو ڈونلڈ ٹرمپ محلے کی کسی جھگڑالو عورت کی طرح طعنہ زنی، دھمکیوں اور کوسنوں پر اُتر آئے اور انہوں نے دنیا کے منہ پر یہ کہہ کر تھپڑ رسید کیا کہ ڈالر بھی ہم سے لیتے ہیں اور ووٹ بھی ہمارے خلاف دیتے ہیں ہم ان کی امداد بند کر دیں گے۔
جمہوریت، جمہوری اقدار اور انسانیت کی بات کرنے والے ابراہام لنکن کا جانشین یوں برسرعام ڈالروں اور مول تول کی بات کرے اسے امریکا میں پیدا ہونے والا قیادت کا بحران اور قحط الرجال ہی کہا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی اکثریت نے امریکا کی ان دھمکیوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس سے پہلے سلامتی کونسل کے چار ملکوں نے بھی اپنا فیصلہ اعتدال اور انصاف کے حق میں سنا کر اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ دنیا میں یک طرف فیصلوں کا دور گزر گیا ہے۔ امریکا کو یک طرفہ فیصلے ٹھونسنے کی عادت گزشتہ پچیس برسوں میں پڑی جب سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد وہ دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا۔ اس منصب پر فائز ہوتے ہی امریکا نے دہشت گردی کا راگ الاپ کر دنیا کو اپنا ہمنوابنا ڈالا۔ یک قطبی دنیا میں سہمے اور ڈرے ہوئے ملک بھی دہشت گردی اور گلوبلائزیشن کے اس راگ میں شامل ہوگئے اور اس عرصے میں امریکا نے اقوام متحدہ کو بالکل موم کی ناک بنا ڈالا۔ جس ملک اور گروہ کے خلاف چاہا قرارداد منظورکروائی اور پیشگی خطرے کا بہانہ بنا کر حملہ کر دیا۔ مسلمان ممالک بالخصوص اس حکمت عملی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ جس تحریک کو چاہا دہشت گرد کا لیبل چسپاں کر دیا اور کسی نے اعلانیہ مزاحمت اور مخالفت نہیں کی۔ اقوام متحدہ بھی حالات کی لہروں پر ڈولتی اور گھومتی ناؤ کی صورت اختیار کیے رہی۔ اب عالمی منظر میں ایک تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ چین اور روس جنہیں امریکی صدر نے اپنے لیے مستقبل کے خطرات بنا کر پیش کیا اب اپنے مقام کا از سرِنو تعین کر رہے ہیں۔ امریکا اس حقیقت سے خود کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ وہ دنیا کو یونی پولر دور کی دوربین سے دیکھنے پر مُصر ہے مگر دنیا بدل گئی ہے۔
وقت کی ہواؤں کے باعث یونی پولر دنیا کا ورق اسی طرح اُلٹ کر رہ گیا ہے جس طرح ایک بار سرد جنگ کی تاریخ کا ورق اُلٹ گیا تھا اور ایک صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو لینن گراڈ میں نصب لینن کے تاریخی مجسمے پر ٹوٹ پڑنے والے مظاہرین اس بات کا اعلان کررہے تھے کہ دنیا کو تواز ن پر قائم رکھنے والی ایک اہم طاقت سوویت یونین اپنی نظریاتی بنیادوں ہی سے نہیں بھاری بھرکم وجود سے بھی محروم ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا یک قطبی ہو کر رہ گئی ہے۔ وقت کو زنجیر کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوئی مگر امریکا وقت کو قید کرنے اور بیڑیاں اور زنجیریں پہنا کر اس کی چال کو روکنے پر اصرار کررہا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ بھی بدلتی ہوئی عالمی اور زمینی حقیقت کو سمجھنے میں ناکامی ہی تھا مگر مدہوش اور بے حس عالمی ضمیر نے اس فیصلے کی مخالفت کر کے ایک جھرجھری لی ہے کچھ عجب نہیں کہ ایک روز یہ ضمیر زندہ وبیدارہو کر بہت سی ناانصافیوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنا ڈالے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے بعد امریکا عالمی رائے عامہ کا فیصلہ قبول کرے گا ٹرمپ کے دور حکومت میں تو اس کا امکان نہیں مگر امریکا تادیر عالمی رائے عامہ کی لہروں کے اُلٹے رخ بھی اپنا سفر جا ر ی نہیں رکھ سکتا۔ صرف فلسطین ہی نہیں کئی دوسرے عالمی معاملات، مسائل اور تنازعات میں اب انسانی ضمیر کو ہانکنے کا رویہ اب کارگر اور قابل قبول نہیں رہ سکتا۔