اکبرؔ کی کہی ہوئی سب باتیں پوری ہوئیں!

661

احمد حاطب صدیقی
خوشی کی بات ہے کہ مطبوعہ، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر اُردو میں لکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اچھی اُردو لکھنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ کیوں نہ گھٹے؟ ایک مدت ہوئی کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے اُردو عنقا ہو گئی ہے۔ اُردو میں کچھ پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ اُردو بھی پڑھائی جاتی ہے تو اس طرح جیسے کوئی غیر ملکی زبان پڑھائی جا رہی ہو۔ جب کہ ہمارے بچوں کو تمام علوم غیر ملکی زبان میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اسلامی علوم بھی۔ سب جانتے ہیں کہ علومِ اسلامی کی اکثر اصطلاحات ایسی ہیں جن کا انگریزی میں کوئی ترجمہ ہی موجود نہیں۔ مثلاً ’’ربّ‘‘ کا اصطلاحی ترجمہ موجود نہیں۔ ’’ربّ‘‘ پالنے والے، پروان چڑھانے والے، نشوونما دینے والے، دیکھ بھال کرنے والے اور تربیت دینے والے کو کہتے ہیں۔ اتنے مفاہیم بھلا انگریزی کے کسی ایک لفظ سے آپ کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ مثلاً ’’طہارت‘‘ کا اصطلاحی ترجمہ موجود نہیں۔ ’’طہارت‘‘ میں جسمانی اور روحانی پاکیزگی کا جو امتزاج پایا جاتا ہے اس کا مفہوم ادا کرنے کو انگریزی کا کون سا لفظ اپنی خدمات پیش کرے گا؟ اور مثلاً ’’حیا‘‘ کا اصطلاحی ترجمہ موجود نہیں۔ لفظ ’’حیا‘‘ میں جو حسن اور جو حجاب ہے، عفت و عصمت کی جو اعلیٰ اخلاقی اقدار سموئی ہوئی ہیں، باکردار ہونے کا جو اظہار موجود ہے، اُس کا تصور کسی ’’بے حیا‘‘ زبان میں کہاں؟ ان الفاظ کے جو تراجم انگریزی کی نصابی کتب میں استعمال کیے جاتے ہیں، وہ ان اصطلاحات کا حقیقی مفہوم اپنے قاری تک منتقل کرنے سے عاجز ہیں۔ یوں ہمارا بچہ ہماری تہذیبی اور ثقافتی میراث کی چاشنی سے بالکل نا آشنا ہوگیا ہے۔ وہی اکبرؔ والی بات ہوئی نا ۔۔۔ ’’کیک کھا کرکے سِویّوں کا مزہ بھول گئے‘‘۔۔۔ اے صاحبو! کیک کرسمس کی علامت ہے اور سویاں عید الفطر کی۔
اکبرؔ کی کہی ہوئی سب باتیں پوری ہوئیں۔ وہ تمام باتیں جن کی بابت اُن کا خیال تھا کہ انگریزی نظامِ تعلیم رائج کرنے کے نتیجے میں جنم لیں گی۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’زباں نا آشنا ہوگی ہماری اصطلاحوں سے‘‘۔ سو ہوگئی۔ حتیٰ کہ اب ہمارے بچے لفظ ’’ایمان‘‘ سے بھی نا آشنا ہو گئے ہیں۔ کل ہی ایک ننھی منی بچی بڑی معصومیت سے پوچھ رہی تھی کہ:
’’انکل! Faith کو اُردو میں کیا کہتے ہیں؟‘‘
اکبرؔ کو یقین تھا کہ ’’لغاتِ مغربی بازار کی بھاشا میں ضم ہوں گے‘‘۔ سو ہوگئے۔ اب اگر دُکان والے لڑکے سے کہیے کہ:
’’ناخن تراش چاہیے‘‘۔
تو وہ سمجھ نہیں پاتاکہ کیا چیز چاہیے۔ جب سمجھاؤ کہ:
’’وہ چیز چاہیے جس سے ناخن کاٹتے ہیں‘‘۔
تو ڈانٹ پلاتا ہے کہ:
’’چاچاجی! اُردو میں بولو نا کہ Nail cutter چاہیے‘‘۔
گزشتہ ماہ یومِ اقبالؒ پر (۹؍نومبرکو) ایک ایسے تعلیمی ادارے میں مہمان بن کر جانے کا موقع ملا جو غیر ملکی تعاون سے چلتا ہے۔ اس تعلیمی ادارے کی ایک زنجیر ہے جو ملک بھر میں کھنچی ہوئی ہے۔ یہ زنجیر بھی، ظاہر ہے کہ، انگریزی نظام تعلیم کی زنجیر ہے۔ اس زنجیر کی بیڑیوں نے ہمارے بچوں کی زبان ہی کو نہیں، ذہن کو بھی جکڑ رکھا ہے۔ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی ہیں۔ ان کو اپنے علم و ادب کے لطف سے محروم کر دیا ہے۔ تقریب میں علامہ اقبالؒ کے موضوع پر دو تقریری مقابلے تھے۔ ایک انگریزی میں، ایک اُردو میں۔ اُردو تقریری مقابلے کے لیے طلبہ و طالبات کو بلانے والے اعلانات بھی انگریزی میں کیے جار ہے تھے۔ اساتذہ کی تمام تقریریں انگریزی میں تھیں۔ بچوں کو ہدایات بھی انگریزی زبان میں دی جا رہی تھیں۔ نگراں اُستانی نے مقابلوں کے اختتام پر تحسین و توصیف کے کلمات بھی انگریزی میں ادا کیے۔ اس تمام عرصے میں بچے ہر قسم کے جذبات سے عاری، ساکت و صامت بیٹھے رہے۔
جب مہمانِ خصوصی کی باری آئی تو انہیں تقریب کے کسی بزرگ کی جانب سے پہلی بار اُردو سننے کو ملی۔ بچوں سے وطن عزیز پاکستان کا تعارُف کرایا۔ اس کے قیام کے اسباب بتائے۔ نظریۂ پاکستان سے روشناس کرایا۔ پھر تصورِ پاکستان کے حوالے سے اقبالؒ کا تعارُف کرایا۔ بچوں نے بے تکلف گفتگو کے دلچسپ انداز میں یہ باتیں سنیں تو پہلی بار اُن میں زندگی کے کچھ آثار پیدا ہوئے۔ جب بچوں سے اقبالؒ کی شاعری کا تعارُف کرانا شروع کیا تو وہ گفتگو میں شریک بھی ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ اقبالؒ کی نظموں میں سے اُنہیں ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ والی نظم بہت اچھی لگتی ہے۔ ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘ کئی بچوں کو زبانی یاد تھی۔ گفتگو کے اختتام پر اُنہیں اقبالؒ کی نظم ’’پہاڑ اور گلہری‘‘ مشکل الفاظ کے معانی کے ساتھ سنانی شروع کی تو اُن کی خوشی اور پہاڑ کو دیے جانے والے ’’گلہری‘‘ کے جوابات پر اُن کی ہنسی دیدنی تھی۔ بچے اتنے خوش تھے کہ تقریب کے اختتام پرایوان سے باہر جاتے وقت مہمانِ خصوصی سے فرداً فرداً ہاتھ ملانے بھی آئے۔ ان میں سے بعض نے مہمان کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔
چائے پر محترمہ ’’پرنسپل‘‘ صاحبہ کے دفتر میں اُن کی توجہ نہ صرف بچوں کی ان کیفیات کی طرف مبذول کرائی، بلکہ اس امر کی نشان دہی بھی کی کہ جن بچوں نے انگریزی میں تقاریر کیں، اُن کے اندازِ تقریر اور اُن کے لب و لہجہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایک رٹا رٹایا مواد ’’پڑھ‘‘ رہے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے اٹک بھی رہے ہیں۔ جب کہ اُردو میں کی جانے والی تقاریر، اگرچہ بچوں کو اُن کے بڑوں یا اُن کے اساتذہ ہی نے لکھ کر دی ہوں گی، مگر ان تقاریر کی ادائی میں روانی بھی تھی اور ان کے مندرجات کو ادا کرتے وقت، صاف معلوم ہوتا تھا کہ، بچے جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سمجھ کر کہہ رہے ہیں۔ چند بچوں کے نام لے کر بتا یا کہ اقبالؒ کے اشعار پڑھتے وقت اُن کا جوش و خروش ہی اُن کی تقریر کی جان تھا۔ مثلاً:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مادام سے سوال کیا:
’’آخر آپ بچوں سے اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کیوں سلب کر رہی ہیں؟ آپ تو ماہر تعلیم ہیں، آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ بچہ جس زبان میں خواب دیکھتا ہے، اُسی زبان میں سوچتا بھی ہے اور وہی زبان اُس کے تخیل کی پرواز کے لیے پر بھی فراہم کرتی ہے‘‘۔
مادام ہماری ’’بے انگریزی‘‘ اُردو سن کر قدرے شرمندہ ہوئیں اور لہجے میں ایک جھجھک کے ساتھ کہنے لگیں:
’’ہم بھی کیا کریں؟ ہمارے پاس جو Parents (والدین) آتے ہیں، وہ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے کو اور کچھ آئے نہ آئے، انگریزی بولنا ضرور آنا چاہیے‘‘۔
تب ہم نے جانا کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں صرف بچوں ہی سے نہیں چھینی گئی ہیں، انگریزی نظامِ تعلیم نے والدین، اساتذہ اور ماہرین تعلیم سے بھی ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لی ہیں۔