عوام کے راستے عوام پر بند

320

گزشتہ جمعہ کو صدرمملکت اور وزیراعظم دونوں ہی شہر کراچی میں موجود تھے اور اہل کراچی دونا عذاب میں مبتلا تھے۔ کبھی کسی بڑی شخصیت کی کسی شہر میں آمد باعث خیر ہوا کرتی تھی اور اہل شہر کی کچھ تمنائیں پوری ہونے کا امکان ہوجاتا تھا مگر اب وزیراعظم یا صدر کی آمد شہریوں کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ یوں تو انتہائی اہم کہلانے والی شخصیات اپنے ہی شہر میں جب گھر کے دروازے سے باہر قدم رکھتی ہیں تو عام زندگی جام ہوجاتی ہے‘ ہر طرف ہٹو بچو کا شور اور پولیس و رینجرز کی متعدد گاڑیاں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ راستے میں کوئی اور نظر نہ آئے۔ شہری تو یوں بھی روزانہ ٹریفک جام کی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں اور کسی نہ کسی وجہ‘ بلکہ بلاوجہ بھی چوڑی چوڑی سڑکیں تنگ پڑ جاتی ہیں اور عوام بھی تنگ ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو مصروف ترین شاہراہ فیصل کو عوام کے ان خادموں کی وجہ سے تین بار عوام کے لیے بند کیا گیا۔ سہ پہر تین بجے ہی سے ٹریفک کو روک دیا گیا کہ بڑے صاحب کی سواری گزرنے والی ہے۔ اس وقت صدرمملکت کراچی پہنچ رہے تھے اور ایئرپورٹ سے شاہراہ فیصل ہی ان کو لاتی لے جاتی ہے چنانچہ دونوں طرف کے راستے بند کردیے گئے۔ ظاہر ہے کہ صدرمملکت صرف ایک ٹریک سے تو گزرنے سے رہے۔ شاہراہ فیصل چوڑی سڑک ہے اس کا ایک راستہ یا ٹریک صدر معظم کے لیے بند کرکے دوسرا ٹریک عام لوگوں کے لیے کھولا جاسکتا ہے۔ لیکن پھر پولیس اور دیگر عملے کی کارکردگی کیسے ظاہر ہوتی۔ بڑی شخصیات کو موت کا خوف بھی بڑا ہوتا ہے اور کچھ ان کے محافظ خوفزدہ رکھتے ہیں۔ لیکن موت تو ایسی حقیقت ہے کہ آکر رہتی ہے اور اس کا وقت بھی متعین ہے۔ نہیں آتی تو ’’جھنڈا چیچی پل‘‘ سے بھی کترا کر نکل جاتی ہے۔ جناب ممنون حسین کے گزر جانے کے کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم صاحب بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بن قاسم جانے کے لیے ایئرپورٹ کو روانہ ہوئے تو ایک بار پھر شاہراہ فیصل بند ہوگئی کہ عوام کا خادم گزرے گا۔ عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے بجائے ایسی اہم شخصیات کو سڑک کے بجائے ہیلی کاپٹر سے لانے لے جانے کا بندوبست کرنا چاہیے یا پھر ان کے قیام کا انتظام ایئرپورٹ کے قریب کیا جائے کہ بے کھٹکے آئیں‘ جائیں۔ وزیراعظم کی واپسی پر تیسری دفعہ پھر شاہراہ فیصل بند کردی گئی۔ وزیراعظم کو ہیلی کاپٹر ہی سے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچادیا ہوتا۔ لیکن یہ اہم ترین شخصیات جس شہر میں جاتی ہیں عوام پر راستے بند ہوجاتے ہیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں تو کیا ایران اور سعودی عرب میں بھی یہ شاہانہ کروفر دیکھنے میں نہیں آیا۔ سعودی عرب میں تو بادشاہت ہے لیکن وہاں جب بادشاہ یا گورنر گزر جاتا ہے تب پتاچلتا ہے کہ کون خاموشی سے گزر گیا۔جانے کب عوام کو عوامی حکمران ملیں گے؟