امریکی دھمکی اور اس کا جواب

397

امریکا کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کے بعد پاکستان نے بھی جان پکڑ لی ہے اور امریکی نائب صدر مائیک پنس کی تازہ ہرزہ سرائی کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ نے جواب دیا ہے کہ مائیک پنس کا بیان امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کے منافی ہے، اتحادی ممالک ایک دوسرے کو تنبیہ نہیں کرتے، مائیک پنس کی طرف سے یہ دعویٰ کرنے پر کہ امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو نوٹس دے چکے ہیں ٹھیک ہو جاؤ، دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے دن گئے۔ اس پر ترجمان دفتر خارجہ نے جواب دیا ہے کہ نوٹس تو ان کو دیا جائے جو افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے کے ذمے دار اور داعش کو مضبوط کررہے ہیں۔ ترجمان نے نئی امریکی دھمکیوں کی وجہ بھی یہ کہہ کر بیان کردی ہے کہ ’’ دھمکیوں کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت نہیں چھوڑیں گے، بیت المقدس کا دفاع پاکستانی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے ‘‘ ۔ تاہم امریکی دھمکیوں کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ کا بیان ڈھیلا ڈھالا ہے۔ ٹرمپ کی حرکتوں سے ظاہر ہے کہ امریکا، بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ ہی نقصان میں رہے گی۔ اس کا اظہار گزشتہ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کو منتخب کرنے والے امریکیوں کی اکثریت اب اس غلطی پر پچھتاوے کا اظہار کررہی ہے اسی لیے ٹرمپ کے لہجے میں تیزی اور تندی بڑھتی جارہی ہے تاکہ وہ امریکی عوام کو باور کراسکیں کہ وہ بہت طاقت ور صدر ہیں ۔ لیکن ایک چھوٹے سے ملک شمالی کوریا نے امریکا کی ناک میں نکیل ڈال رکھی ہے اور پابندیوں، دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان کا یہ کہنا کہ اتحادی ممالک ایک دوسرے کو تنبیہ نہیں کرتے اور یہ امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کے منافی ہے، اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ سے کسی قسم کے مذاکرات جاری ہیں اور پاکستان اب بھی خود کو امریکا کا اتحادی قرار دیتا ہے اور اسی حیثیت سے پیار بھرا شکوہ کردیا ہے کہ ہم تو آپ ہی کے ہیں ، ہم سے یہ بے رخی کیوں۔ تاہم ترجمان نے یہ نشان دہی بھی کردی ہے کہ امریکا ہم پر سختی کرنے کے بجائے ان کی خبر لے جو افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ اور دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کو مضبوط کررہے ہیں ۔ بین الاقوامی تحقیقاتی رپورٹیں گواہ ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران میں منشیات کی پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اور اب اطلاعات ہیں کہ افغانستان پر قابض امریکی فوجی افیون کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کابل حکومت بھی وار لارڈز کے سامنے بے بس ہے چنانچہ منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہور ہا ہے جس کی بڑی مقدار یورپ و امریکا کو اسمگل کر دی جاتی ہے۔ یہ وبا پاکستان میں بھی افغانستان کے راستے پھیل رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے اندر دہشت گردی کے کُھرے بھی افغانستان سے ملتے ہیں جہاں امریکا قابض ہے۔ اب یا تو ان دہشت گردوں کو امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے یا یہ امریکا اور کابل حکومت سے زیادہ طاقت ور ہیں ۔ امریکی نائب صدر مائیک پنس نے افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے میں امریکی اڈے بگرام ائر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بہت نقصان اٹھائے گا، اسلام آباد طویل عرصے سے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے، سرحد پار سے لاحق خطرات نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پاکستان تو جب سے امریکا کا اتحادی بنا ہے نقصان ہی اٹھا رہا ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو یا بھارتی سازش سے سقوط ڈھاکا، امریکا نے کبھی پاکستان کا اتحادی ہونے کا عملی ثبوت نہیں دیا۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نقصان اٹھانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ امریکا زیادہ سے زیادہ کیا کرلے گا ؟ کیا وہ افغانستان اور عراق کی طرح پاکستان میں فوج اتارے گا ؟ ایسا کر کے دیکھ لے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان ہی نہیں پورا جنوبی ایشیا امریکی لعنت اور استبداد سے آزاد ہو جائے گا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے امریکا فضائی حملے کرسکتا ہے اور ڈرون حملے تو کب سے جاری ہیں ۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ وہ افغانستان میں پرورش پانے والے دہشت گردوں اور نئے اتحادی بھارت کو پاکستان کے خلاف ہشکار سکتا ہے۔ اس سے کچھ جانی نقصان تو ہوگا لیکن پھر پاکستان ہر قسم کے مذاکرات اور معاہدوں سے آزاد ہو جائے گا اور ایسے موقع پر پاکستانی قوم بھی متحد ہو جائے گی۔ 1965ء میں بھارتی حملے کے نتیجے میں یہی ہوا تھا کہ قوم نے ہر قسم کے اختلافات بھلا دیے تھے اور یک جان ہوگئی تھی۔ مائیک پنس کہتے ہیں کہ سرحد پار ( پاکستان) سے خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے برعکس پاکستان کو سرحد پار سے خطرات کا سامنا ہے۔ مائیک پنس ذرا یہ تو بتائیں کہ وہ کس سرحد کی بات کررہے ہیں۔ کیا افغانستان ان کا ملک ہے یا امریکا اس پر قابض ہے اور ایک غاصب ملک ہے۔ امریکا جان چھوڑے اور واپس جائے۔ امریکا کے ایک حکم پر سر جھکانے والے کمانڈو آمر پرویز مشرف فرماتے ہیں کہ پاکستان کا جھکاؤ چین کے بجائے امریکا کی طرف ہونا چاہیے۔ یعنی پاکستان امریکا کے سامنے جھکتا جائے اور دھمکیاں برداشت کرتا رہے۔ پرویز مشرف ہوتے تو وہ یقیناًایسا ہی کرتے مگر اب وہ محض اپنی مخمور دانش ہی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اسی اثنا میں سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا حافظ سعید کے خلاف بھی اسامہ جیسی کارروائی کرسکتا ہے، یکطرفہ آپریشن کی بات پہلی بار سامنے آئی ہے۔ مشاہد حسین نے ڈرایا ہے کہ امریکی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ یہ بھی بتا دیں کہ کیا کیا جائے۔