عالمی قوانین کو مانتا کون ہے؟

311

چھ ملکی اسپیکر کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر اور القدس کے تنازعات عالمی قوانین کے مطابق طے کیے جائیں۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ تنازع کشمیر سے خط ے کا امن داؤپر ہے۔ چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ بھارت ، امریکا ، اسرائیل گٹھ جوڑ بن رہاہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نان اسٹیٹ ایکٹرز سے شکوہ کیا کہ انہوں نے قوموں کی خود مختاری کو نقصان پہنچایاہے ۔ ایرانی اسپیکر علی لاریحانی نے کہا کہ امریکی مہم جوئی کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ روسی اسپیکر جو لامذہب ہیں فرماتے ہیں کہ دہشت گردی پوری دنیا اور مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ اسپیکر کانفرنس کے اعلامیہ میں داعش کو سنجیدہ خطرہ قراردیاگیاہے۔ اگر کانفرنس کا اعلامیہ سامنے رکھیں تو بہترین باتیں کی گئی ہیں لیکن اسپیکرز اور شرکا کے خطاب اور تقریر اس اعلامیے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طورپر ایک جانب امریکی مہم جوئی ، امریکا بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی بات کی جارہی ہے دہشت گردی قومی خطرہ قرار دیاجارہاہے اور دسری جانب تنازعات عالمی قوانین کے مطابق طے کرنے کی بات کی گئی ہے،دنیا کے بد معاش ممالک دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ داعش القاعدہ مختلف دہشت گرد گروپ بنارہے ہیں اور یہ ممالک عالمی قوانین کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو یہ ممالک عالمی قوانین کے مطابق تنازعات کیونکر طے کریں گے۔ اسپیکر کانفرنس کا اعلامیہ کہتا ہے کہ داعش خطرہ ہے لیکن اس حوالے سے یہ بتانا ضروری تھا کہ داعش کا خالق کون ہے اسے اسلحہ اور میڈیا کوریج کون دے رہاہے۔ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کون کررہاہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی کی سرپرستی امریکا کررہاہے۔ دراصل امریکا سنجیدہ خطرہ ہے اس جانب صدر ممنون حسین اور ایرانی اسپیکرز نے نشاندہی کی ہے لیکن امریکا کو چھوڑ کر دوسروں سے مطالبات کیے جارہے ہیں۔ اگر چہ یہ چھ ممالک کے اسپیکر تھے لیکن آج کل چین ، روس، ترکی اور پاکستان کی اہمیت ساری دنیا میں مسلم ہے، ان ممالک کے موقف کی اہمیت ہے اسے ساری دنیا میں پھیلایاجانا چاہیے اور ان ممالک کو اپنا موقف دنیا سے منوانا بھی چاہیے۔ روس جیسے لا مذہب ممالک کے اسپیکر کہتے ہیں کہ دہشت گردی دنیا اور مذہب کے لیے خطرہ ہے۔ خوشی کی بات ہے کے روسیوں کو بھی مذہب کی فکر ہوگئی ہے لیکن یہ ملک اصل سمت میں کیوں بات نہیں کرتے ساری دنیا کے سامنے امریکا نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے خلاف قرارداد کو 14 کے مقابلے میں تنہا ویٹو کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ امریکی مندوب نے مزید ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ فیصلہ کچھ بھی ہو امریکا وہی کرے گا جو اس کو کرناہے، یعنی اقوام متحدہ کی امریکا کے نزدیک کوئی اوقات ہی نہیں۔ اب بھی 128 کے مقابلے میں صرف9ممالک نے امریکا کا ساتھ دیا اور 35ممالک نے منافقت کا مظاہرہ کیا اس کے باوجود امریکا ڈھٹائی کا مظا ہر کررہاہے۔ بہر حال اسپیکرز کانفرنس کے اعلامیے کوبھی اقوام متحدہ کے تمام ممالک کی حکومتوں کو بھیجاجانا چاہیے کہ جب تک اقوام عالم کی بڑی طاقتیں عالمی قوانین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا احترام نہیں کریں گی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کریں گی اس وقت تک دنیا امن کو ترستی رہے گی۔