وہ جو کتا نہیں ہے گھر سے نکل جائے 

495

شاعر نے کہا تھا
خود اپنے ساتھ دھوکا کیوں کروں میں
کسی سائے کا پیچھا کیوں کروں میں
لیکن مسلم ممالک کے حکمران اقوام متحدہ کا پیچھا کرنے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ جمعرات کو یمن اور ترکی نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے امریکی فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی۔ پاکستان نے اس قرار داد کی حمایت کی۔ جنرل اسمبلی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو 128 ووٹوں سے مسترد کردیا اور اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔ امریکا اور اسرائیل سمیت صرف نو ممالک نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جن میں چھوٹے جزائر اور غیر معروف ممالک شامل ہیں۔ امریکی اتحادیوں برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان اور بھارت کے علاوہ مصر، اردن، عراق اور سعودی عرب نے بھی قرار داد کی حمایت کی۔ اس سے پہلے امریکا کو سلامتی کونسل میں بھی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جہاں پندرہ میں سے چودہ ممالک نے امریکی فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو امریکا نے اپنا حق استرداد استعمال کرتے ہوئے غیر موثر کردیا۔ جنرل اسمبلی میں امریکا کے خلاف قرارداد منظور ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی سفیر نکل ہیلی نے کہا ’’امریکا اس معاملے کو یاد رکھے گا کہ بیت المقدس کے معاملے میں اسے تنہا کردیا گیا۔ اقوام متحدہ اسرائیل کا دشمن بن گیا ہے جو شرم کا مقام ہے۔ امریکا اقوام متحدہ کو امداد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے اور ہم سے مزید رقم کا مطالبہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ہماری بے عزتی کی جاسکے۔ اقوام متحدہ اور جنرل اسمبلی میں ہماری بے عزتی کرنے والے ممالک کے حوالے سے ہمارا رویہ بدل جائے گا۔ اگر ہمارا سرمایہ ضائع ہورہا ہے تو ہم اسے دوسری صورت میں استعمال کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’اقوام متحدہ کی ووٹنگ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکا اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرکے رہے گا۔‘‘
حقیقت وہی ہے جو امریکی سفیر نے کہی کہ اقوام متحدہ کی ووٹنگ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اقوام متحدہ امریکا اور دوسری استعماری طاقتوں کے مفادات کی نگرانی اور تکمیل کرنے والا ادارہ ہے۔ جہاں امریکی مفادات اور پالیسیوں پر زد پڑتی ہے وہاں اس ادارے کی نقل وحرکت ہارر فلموں میں مُردوں کی چلت پھرت کی مثل ہوتی ہے۔ بے نتیجہ اور بے معنی۔ عمل کی روح سے خالی۔ اگر معاملہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کا ہو تو پھر اس ادارے کی پھرتی دیدنی ہوتی ہے۔ یہ ادارہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ جیسے مشرقی تیمور کی انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی کا معاملہ۔ چند برس قبل کی بات ہے مشرقی تیمور انڈونیشیا اور دارفر سوڈان کا حصہ تھا۔ ان دونوں علاقوں میں عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ ان دونوں علاقوں نے مسلم اکثریت کے ساتھ رہنے کے بجائے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ علیحدگی کی تحریک چلنے کی دیر تھی عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکا کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا اور وہ اٹھتے بیٹھتے ان تحریکوں کی حمایت میں بیان داغنے لگے۔ سوڈان اور انڈونیشیا لاکھ کہتے رہے کہ یہ ہمارے علاقے ہیں۔ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ عیسائی اقلیت کو مسلمانوں سے کوئی شکایت ہے تو ہم پہلے کی طرح بیٹھ کر معاملات طے کرلیں گے۔ مگر کیا مجال جو کسی نے ان کی بات پر کان دھرے ہوں۔ یوں ایک قلیل مدت کی جدوجہد کے بعد ہی امریکا، اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ پر ان علاقوں میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا گیا اور چٹکی بجاتے ہی دو مسلمان ملکوں کے حصے بخرے کرکے دو آزاد عیسائی ریاستیں تشکیل دے دی گئیں۔ لیکن یہی امریکا، اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ مقبوضہ کشمیر اور اہل فلسطین کے حق کی بات آتی ہے تو مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔ کشمیر میں کشمیریوں کی بھارتی درندے نسل کشی کررہے ہیں اہل کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن امریکا، اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھارت پر معمولی سا دباؤ ڈالنے پر تیا ر نہیں۔ ستر برس سے جو حالت کشمیر کے باب میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ہورہی ہے وہی حالت بیت المقدس کے حوالے سے منظور کی جانے والی حالیہ قرارداد کی ہوگی۔ ماضی میں بھی اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی اکثریتی قراردادوں کا یہی حشر ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے میڈیا اور حکمران حلقوں میں اقوام متحدہ کی حالیہ قرارداد کے 128ووٹوں سے منظور ہونے پر ایسے خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے جیسے آخری معرکہ سر کر لیا گیا ہو۔
امریکی سفیر نکل ہیلی نے اقوام متحدہ کو امداد دینے کے حوالے سے جو بات کی ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے۔ ایک مشہور ماہر قانون طلبہ کے ایک گروہ کے سامنے بیتے دنوں کی یادیں تازہ کررہا تھا کہ: ’’جوانی میں مجھے رقص کا بڑا شوق تھا۔ میں فون پر جب بھی اپنی کسی گرل فرینڈ کو رقص کی دعوت دیتا میرے والدین میرے ہاتھ سے ریسیور چھین کر قانون کی کوئی موٹی سے کتاب تھما دیتے۔ اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘ ایک طالب علم نے رشک کرتے ہوئے کہا: ’’یعنی آپ ایک بہترین ماہر قانون بن گئے۔‘‘ ماہر قانون نے آہ بھر کہا ’’نہیں۔۔۔! بلکہ ایک واہیات ڈانسر‘‘۔ اقوام متحدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی رہا اس ادارے نے جب بھی اپنا من پسند کردار اداکرنا چاہا، اپنی قراردادوں پر عمل کی کوشش کی امریکا نے ایک موٹی سی رقم اس ادارے کو تھمادی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ آج ایک واہیات ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ امریکا ماضی میں بھی زیر دست ممالک کو دیے جانے والے قرضوں کو اپنی مطلب براری اور دباؤ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے لیکن چھچھورے لوگوں کی طرح یوں سر عام اپنے قرض خواہوں کو طعنے اور دھمکیاں کم ہی دیکھنے میں آتی تھیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ۔ جنرل اسمبلی میں اکثریت سے امریکا مخالف قرارداد پاس ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا جن ممالک نے ان کا حکم نہیں مانا ان کی امداد بند کردیں گے۔ اچھا ہوا ہمارے اربوں ڈالر بچ گئے۔ ان کی مراد اسلامی ممالک سے تھی جن میں سے بیش تر امریکی امداد کے سہارے زندگی کے دن بتا رہے ہیں۔ امریکا کی نظر میں ان ممالک کی کیا حیثیت ہے۔ اس پر بھی ایک لطیفہ سن لیجیے۔ حالاں کہ یہ لطیفہ بازی کے بجائے شرم اور رو دینے کی جا ہے لیکن کیا کیا جائے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی عزت آبرو اور غیرت کو ایک لطیفہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ’’امریکی ریاست ٹیکساس کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کتے پالنے کا شوق ہے۔ جم اسی ریاست کا باشندہ تھا اسے شادی کے تیسرے روز ہی بیوی نے خاصی بے عزتی کرکے نکال دیا۔ اس نے قانونی علیحدگی کے لیے عدالت کا رخ کیا۔ عدالت نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ’’حضور عالی! شادی کے بعد پہلے دو دن تو میں برداشت کرتا رہا۔ تیسرے دن مجھ سے نہیں رہا گیا اور میں نے بیوی سے کہہ دیاکہ ایک گھر میں 29کتے بہت زیادہ ہیں۔ اب یاتو میں رہوں گا یا یہ رہیں گے۔ اس پر بیوی نے کہا وہ جو کتا نہیں ہے گھر سے بے شک چلا جائے۔‘‘ آج یہی بات صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں ’’جو امریکی کتا نہیں وہ ہمارے حلقے سے نکل جائے۔ ہمارے اربوں ڈالر بچ جائیں گے۔‘‘ یہ صدر ٹرمپ کن ممالک کے حکمرانوں سے کہہ رہے ہیں۔ جانے دیجیے۔ منہ مزید کڑوا ہوجائے گا۔
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)