سرد جنگ کی بیمار ذہنیت

397

شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب امریکا یوں پاکستان کے در پہ آزار ہوگا کہ امریکا اور بھارت کے رویوں میں حدِ امتیاز قائم کرنا مشکل ہوگا۔ چین پاکستان کا ہمسایہ، سدا بہار دوست، آڑے وقت میں کام آنے والاسہی مگر اس کے باجود ایک عام پاکستانی کے لیے یہ ان دیکھی دنیا ہی رہی، یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سماجی سطح پر اس قدر گہرے روابط پیدا نہ ہو سکے جس قدر تعلقات بیتے ہوئے ماہ وسال میں امریکا کے ساتھ فروغ پزیر رہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم سے اچھی ملازمت اور سیاحت سے سفارت کاری تک ہر شخص ’’امریکا چلو‘‘ کے خبط کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کا اتار چڑھاؤ ہر دور میں جاری رہا مگر گرین کارڈ کے حصول کی خواہش میں کبھی کمی نہیں آئی۔ پاکستان کے جغادری حکمرانوں سے طاقتور سیاست دانوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مذہبی اسکالرز، پروفیشنلز، فن کاروں تک اس کوشش میں رہے کہ امریکی سفیر اور سفارت کار ان پر نظر کرم کریں۔ امریکی این جی اوز تک ان کی رسائی ہو۔ وہاں کے تعلیمی اداروں میں ان کا داخلہ ممکن ہو سکے۔ اکثر کی یہ خواہش پوری بھی ہوئی اور آج لاکھوں پاکستانی امریکا کے شہری بن کر اس ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
امریکا نے بھی پاکستان سے کام لیا مگر جم کر دھن اور دولت کے ذریعے اس پر مہربان بھی ہوا۔ اس مہربانی سے ملک کا کتنا بھلا ہوا یہ الگ موضوع ہے مگر ایک بڑا طبقہ اس سے مستفید ہوتا رہا۔ امریکا نے پاکستان سے تعلقات کو زیادہ گہرا کرنے میں دلچسپی تو نہیں لی مگر ایک اچھے آجر کے طور پر وہ پاکستان کو خدمت کے عوض بھرپور معاوضہ دیتا رہا۔ پاکستان نے بھی امریکا کو دنیا کی واحد سپر طاقت بنانے والے آخری معرکے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ امریکا اس جنگ سے ’’ورلڈ چمپئن‘‘ بن کر اُبھرا تو پاک امریکا تعلقات کے چھتنار شجرکو اندر ہی اندر سے گھن لگنا شروع ہوگیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان خود کو امریکا سے دور اور بھارت کو قریب ہوتے دیکھ کر خود کو ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ کی کیفیت میں پاتا رہا۔ پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت رکنے کا امکان نہیں جب تک کہ امریکا اور پاکستان کے دفاعی تصورات کا تضاد کم نہیں ہوتا اور اس تضاد کا اول وآخر عنوان بھارت ہے۔ ان تعلقات کا نوحہ تو امریکی صدر سے اعلیٰ عہدیداروں اور سفارت کاروں تک ہر کوئی پڑھتا ہے مگر ان تعلقات کا جوابی نوحہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ نے بھی پڑھا ہے۔
جنرل ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میں نیشنل سیکورٹی پالیسی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاک امریکا اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بہت چونکا دینے والی باتیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکا کی وجہ سے ہے۔ امریکا نے کشمیر پر بھارت سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے امریکا کشمیر پر بھارت کی زبان بول رہا ہے اور سی پیک کی مخالفت پر اُتر آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان میں شکست کھا چکا ہے اور وہاں طالبان مضبوط ہو رہے ہیں اسے یہ شکست ہضم نہیں ہو رہی اور وہ پاکستان پر الزامات عائد کر رہا ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کی تباہی ایک غلطی کی دوری پر ہے۔ بھارت پاکستان کو مسلسل روایتی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کی وجہ سے ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ مشیر قومی سلامتی کا یہ دوٹوک پیرای�ۂ اظہار پاک امریکا تعلقات کی آخری ہچکیوں کے مترادف ہے۔ ان تعلقات پر جو کبھی گرم جوش،گہرے اور طویل المیعاد نہیں رہے اب نزع کا عالم طاری ہے۔ اب جو تھوڑا بہت بھرم ہے وہ پاکستان کی روایتی مصلحت پسندی اور احتیاط سے تعلق رکھتا ہے وگرنہ امریکا نے ان تعلقات کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ امریکا بھارت کو خطے میں قائدانہ کردار دینا چاہتا ہے، ان تعلقات کے تابوت میں اپنی طرف سے آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ ٹرمپ نے بھارت کو قائدانہ کردار دینے اور افغانستان کو شراکت دار قرار دیا جب کہ پاکستان کے لیے امریکا کے پاس طعنہ ودشنام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پاکستان کے علاوہ جن دو ملکوں کو امریکا نے اپنا حریف قرار دیا ان میں چین اور روس جیسے اہم ترین ملک شامل تھے۔
امریکی حکمرانوں اور میڈیا نے ابھی تک خوف اور لب بستگی کی ایسی فضاء بنائی ہے کہ اس میں افغانستان پر یلغار اور دوسری ناکامیوں پر انگشت نمائی کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ امریکا نے ایک افغانستان میں اپنے قیام کو طوالت دے کر خطے کے تمام اہم ممالک کے کان کھڑے کر دیے۔ چین اور روس کا چونک جانا فطری امر تھا پاکستان کو تو امریکا کی افغانستان میں موجودگی نے لہو لہو کر ڈالا۔ امریکا نے افغا نستان میں حاصل ہونے والی تمام اسپیس میں بھارت کو شراکت دار بنا دیا اور افغانستان کو پاکستان کا بدترین مخالف ملک بنا ڈالا۔ امریکا کی اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان اور امریکا کی پالیسیوں میں گہرا تضاد پیدا ہو گیا اور پاکستان کو مطمئن کیے اور ساتھ رکھے بغیر امریکا افغانستان میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا نہ ایسا ہوا۔ امریکا نے ایشیا کی قیادت کی باگیں چین سے چھین کر بھارت کے حوالے کرنے کی جو کوشش کی مصنوعی، ناپائیدار اور سطحی تھی۔ چین اور بھارت کی معیشتوں اور پالیسیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا مگر امریکا نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کا قد مصنوعی طور پر اونچا کرنے کی احمقانہ پالیسی اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں فتح حاصل ہوئی نہ پاکستان جیسا تابع مہمل ملک قابو میں رہ سکا۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر امریکا پر بھارت کی زبان بولنے کا الزام عائد کررہے ہیں اور امریکا پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے مگر پاکستان ابھی آنکھوں کا پانی زندہ رکھتے ہوئے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان جیسا لب ولہجہ اختیار نہیں کرتا۔ یہ وہ کیفیت ہے جس پر چین کے اعلیٰ سفارتی اہلکار نے بہت صائب تبصرہ کیا ہے کہ امریکا سر د جنگ کی ذہنیت سے باہر نکلے۔ حقیقت میں امریکا سرد جنگ کے ایک اور دور کو دعوت دے رہا ہے اور فی الحال اس ذہنیت سے چھٹکارہ پانے کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ اسی لیے دنیا میں نئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔