سی پیک: کہیں ہم چینی کالونی تو نہیں بن رہے 

388

تیسری دُنیاکے تقریباً تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کی آزادی سے لے کر آج تک ویسے تو تمام اداروں میں تصادم کے متعدد واقعات ہماری تاریخ کا ایک تلخ باب ہیں لیکن اس ضمن میں دو بڑے اداروں سول قیادت اور فوج کے درمیان گزشتہ ستر سال کے دوران ہمیں کم ہی تعاون اور اتفاق رائے نظر آتا رہا ہے حالاں کہ آئین پاکستان میں ان دونوں اداروں سمیت تمام دیگر قابل ذکر ریاستی اداروں کے درمیان حدود وقیود کا واضح تعین موجود ہے ۔اس پس منظر میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب سے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے وہ مسلسل اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ان کی قیادت میں فوج کی جانب سے سول اداروں میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی موجودہ حکومت کو ان کی یا فوج کی جانب سے کسی خطرے کی کوئی فکر کرنی چاہیے۔ جنرل باجوہ نے گزشتہ دنوں پاکستان کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے ارکان سینیٹ کو ملکی صورت حال پر بریفنگ اور ان کے تند وتلخ سوالات کے جوابات انتہائی تحمل اور خندہ پیشانی سے دے کر جہاں اپنے قول وفعل کی یکسانیت ثابت کر دی ہے وہاں وہ فیض آباد دھرنے سے متعلق یہ بڑا بول بول کر بھی اپنی پوزیشن مذیدمستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اگر اس دھرنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ ثا بت ہوجائے تو وہ اپنے عہدے سے استعفا دے دیں گے۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا بھی ہماری سیاسی قیادت کے لیے توجہ کا حامل ہے کہ ختم نبوت کا ایشو خود سیاسی قیادت سے مس ہینڈل ہوا اور یہ سیاست دان ہی ہیں جو فوج کو نہ صرف سول معاملات میں مداخلت کی دعوت اور شہہ دیتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں اس کے لیے فضا بھی ساز گار بناتے ہیں۔ کیا جنرل باجوہ کی اس صاف گوئی سے کوئی بھی انکار کی جرأت کر سکتاہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں کسی آرمی چیف نے آج تک کسی بھرے ایوان میں کبھی اتنا بڑا بول بولا ہے کہ اگر فلاں ایشو میں فوج کا ہاتھ ثابت ہوجائے تو بحیثیت آرمی چیف وہ استعفا دے دیں گے۔ ہمارے خیال میں جنرل باجوہ کے اس اعلان کے بعد ہمیں اب پیچھے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنا چاہیے اور جو لوگ اب اس بات پر بضد نظر آتے ہیں کہ حکومت جس کے پاس ہر طرح کے وسائل ہیں اور جس کے لیے یہ ثابت کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے کہ اس دھرنے کے پیچھے اصل ہاتھ کس کا تھا اور آیا کسی کا ہاتھ تھا بھی یا نہیں تو لہٰذا اسے ایسے موقعے اور اس آفر کو نعمت غیرمترقبہ سمجھتے ہوئے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جوبال کی کھال اُتارنے پر یقین رکھتے ہیں اور جو ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر آگے کے جاری سفر کو روکنا چاہتے ہیں۔کیا اس تلخ حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں فوج نے جب بھی منتخب حکومتوں کا تختہ اُلٹا ہے تو اس کی دعوت ہمیشہ سیاست دانوں ہی کی جانب سے دی جاتی رہی ہے اور یہ سیاستدان ہی تھے جو سول حکومتوں کے خاتمے پرمٹھائیاں بانٹتے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہوئے دیکھے جا تے رہے ہیں۔
ماضی کو کریدے بغیر اگر آج جب پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے اور اب آزاد میڈیا اور عدلیہ کی موجودگی میں کسی بھی طالع آزما کے لیے منتخب حکومتوں پر شب خون مارنا نسبتاً مشکل ہو گیا ہے تو ایسے میں بھی اگر کسی جانب سے فوج کو سول معاملات میں مداخلت یا حکومت کے ٹیک اوور کی دعوت دی جا رہی ہے تو وہ کوئی اور نہیں ہے بلکہ یہ خود سیاستدان ہی ہیں جو کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے نہ صرف حسرت بھری نگاہوں سے فوج کی طرف دیکھتے ہیں بلکہ کبھی اشاروں کنایوں اور کبھی کھلے عام اسے موجودہ سسٹم کا بوریا بستر گول کرنے اور منتخب اداروں کا کریا کرم کرنے کی دہائیاں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ در اصل یہ وہ نااہل اور ناکام سیاستدان ہیں جو جب دیکھتے ہیں کہ ان کی دال کہیں بھی گھل نہیں رہی ہے اور انہیں کسی بھی جانب سے کوئی پزیرائی نہیں مل رہی ہے تو یہ عناصر شارٹ کٹ کے سہارے ڈھونڈنے لگتے ہیں جس میں انہیں بھی شیروانیاں پہننے کے خواب نظر آنے لگتے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ آرمی چیف جنرل باجوہ فوج کے عمومی مزاج کے برعکس سول اداروں کا جو احترام کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے اپنے قول و فعل کے ذریعے جس جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا جا رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ سیاستدانوں کو نہ صرف اس طرز عمل اور اپرووچ کا کھلے دل سے احترام کیا جانا چاہیے بلکہ جمہوریت کو کمزور کرنے والے ان عوامل اور اقدامات پر قابو پانے میں بھی اپنے تئیں سنجیدگی دکھانی چاہیے جن کے باعث منتخب سول اداروں پر ہر وقت فوجی مداخلت کی برق گرنے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔