گلبھوشن یادیو مکافات عمل کا دوسرا نام؟

606

بھارت کے جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس کرنل کلبھوشن یادیو اور اس کی اہلیہ اور والدہ کے درمیان سوموار کو پینتالیس منٹ کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے لیے کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ مسقط ائر لائنز کے ذریعے عمان سے اسلام آباد پہنچی تھیں اور انہیں ائر پورٹ سے بھارتی ہائی کمیشن اور بعد ازاں دفتر خارجہ لایا گیا۔ جہاں ان کے درمیان پینتالیس منٹ ملاقات ہوئی۔ پاکستان نے اس ملاقات کو یوم قائد اعظم کے موقعے پر انسانی بنیاد پر ہونے والی اجازت قرار دیا۔ کلبھوشن سنگھ کے اہل خانہ سخت سیکورٹی میں گاڑی سے اترے تو پہلے سے منتظر بھارت کے سفارت کار جے پی سنگھ انہیں ساتھ لے کر چل دیے۔ پاکستان کی طرف سے یہ وضاحت بھی کی کہ بھارتی سفارت کار جے پی سنگھ کی ملاقات کے دوران موجودگی قونصلر سطح کی رسائی نہیں۔
کلبھوشن یادیو ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان پر بیتنے والی اس کہانی کا عنوان ہے جس میں بھارت نے پاکستان کو زخم زخم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ پاکستان کا جسد لہو لہو بھی ہوتا رہا ہے مگر وہ درد کی ٹیسوں کا اظہارکرنے کے حق سے بھی محروم تھا۔ بھارت امریکا کے سرپرستی میں افغانستان میں حاصل ہونے والی گنجائش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا۔ ایک خفیہ ہاتھ مختلف ناموں سے پاکستان سے مختلف علاقوں میں کھُل کھیلتا رہا۔ موت ودہشت کے اس کھیل کے مختلف پاکستانی اسٹائل کے نام تھے۔ اس کھیل کے مقامی کردار بھی پاکستانی تھے۔ وہ وسائل بھی پاکستان کے اندر ہی سے بھتے اور اغوا برائے تاوان سے وصول کرتے تھے مگر ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریں کسی اور ہاتھ میں تھیں اس ہاتھ کا ایک نام کلبھوشن سنگھ بھی ہے۔
کلبھوشن سنگھ حسین پٹیل کے نام سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں ایک کاروباری کے روپ میں تھا اور وہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرنے کے لیے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا۔ کلبھوشن یادیو کو کس طرح ہانکا لگا کر بلوچستان کے اندر پہنچایا گیا اس کی تفصیل حیران کن اور پاکستان کے حساس اداروں کی بہترین مہارت کا ثبوت ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری جاسوسی کہانیوں کا ایک محیر العقول واقعہ ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بھارت پہلے تو سکتے کا شکار ہوا پھر اس کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کی مگر چند دن بعد جب ہوش وحواس بحال ہوئے تو کہا گیا کہ نیوی کا ایک ریٹائرڈ کرنل کافی عرصے سے گم ہے۔ کچھ وقت اور گزرا اور کہا گیا کہ کلبھوشن تو پاکستان کی حدود میں داخل ہی نہیں ہوا بلکہ اسے ایران سے اغواء کیا گیا ہے مگر یہ سودا اس لیے زیادہ فروخت نہ ہو سکا کہ اس میں ایرانی حکومت بھی کچھ وضاحت کرنے پر مجبور ہوتی اس لیے بھارت نے ایران کی وضاحت سے اپنا کیس کمزور ہونے کے خوف سے اس معاملے کو گول ہی کردیا۔ ہوش وحواس جوں جوں بحال ہوتے گئے بھارت ایک نئے موقف کے ساتھ سامنے آتا گیا۔ کہاں یہ کلبھوشن نام کے کسی شخص کے وجود ہی سے انکار کیا جارہا تھا کہاں یہ کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پارلیمنٹ میں کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیا اور اس کی رہائی کی ہر ممکن کوشش کرنے کا اعلان کیا۔ اس دوران پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث اور پاکستانی شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت سنائی جس کے بعد بھارت عالمی عدالت انصاف میں پہنچ گیا یوں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک قانونی جنگ کا میدان بن گئی۔ اب حکومت پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کی اجازت دے دی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس ملاقات سے ایک روز پہلے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اس ملاقات کا کہا گیا تھا۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ملاقات کا کس نے کہا تھا؟ گمان غالب ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے ملاقات کا اہتمام کرنے کو کہا ہو تاکہ کلبھوشن کے زندہ ہونے کا ثبوت حاصل ہونے کے بعد مقدمے کی کارروائی کو چلا یا جائے۔
عالمی عدالت انصاف میں بھارت کلبھوشن کو ایک عام اور معصوم شہری ثابت کرنے کے لیے زور لگا رہا ہے جب کہ پاکستان اس کی فرد جرم کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ کلبھوشن کے اہل خانہ کی رحم کی اپیل صدر مملکت کے سامنے بھی پڑی ہے۔ کلبھوشن کو اہل خانہ سے ملاقات کرانے کے پیچھے کون تھا اور کیا مجبوری تھی؟ یہ تو ابھی واضح نہیں مگر وزیر خارجہ خواجہ آصف کے مطابق کسی کے کہنے پر یہ اہتمام ہوا ہے۔ یہ ’’کسی‘‘ عالمی عدالت انصاف بھی ہو سکتی ہے اور کوئی تیسرا ملک بھی۔ خواجہ آصف نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ یہ آخری ملاقات نہیں۔ گویا کہ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال پاکستان نے اس ملاقات کا اہتمام کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس کے پاس کلبھوشن یادیو سمیت ان کے بارے میں چھپانے کے لیے کچھ نہیں۔ کلبھوشن یادیو کی کارستانیاں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور شہید ہونے والے پاکستانیوں کی قبروں کی صورت جابجا بکھری پڑی ہیں۔ اس کیس میں بہت کچھ چھپانا پاکستان کے بجائے بھارت کی مجبوری ہے۔
ملاقات تو ہوگئی مگر یہ سوال باقی ہے کہ کیا بھارت نے کلبھوشن کیس سے کوئی سبق سیکھا ہے یا وہ پاکستان کو لہولہو کرنے کی اپنی روش پر قائم ہے؟۔ کلبھوشن یادیو بھارت کے اس مکافات عمل کا نام ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور میڈیا میں گونجتا ہوا نام یہ سب اس معصوم لہو کے مظاہر ہیں جو دہشت گردی کی ایسی وارداتوں میں بہہ گیا جس کا محرک نقاب پوش چہرہ اور دستانہ پوش ہاتھ تھے اور وقت نے نقاب اُلٹ دیا اور دستانے اُتار کر رکھ دیے ہیں۔