کلبھوشن کے لیے خیر سگالی اور بھارتی رویہ۔۔۔

359

پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے طور پر بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کی والدہ اور بیوی کو اس سے ملاقات کے لیے ویزا دیا اور ملاقات کرائی ، رحمدلی کی انتہا دیکھیں نصف گھنٹے ملاقات طے تھی پاکستان نے دس منٹ اور دے دیے اور چالیس منٹ کی ملاقات کرائی گئی‘یہ اور بات ہے کہ بھارت نے اس جذبۂ خیر سگالی کا جواب راولا کوٹ میں رکھ چکری کے مقام کو نشانہ بنایا اور گولہ باری سے 3جوان شہید کر دیے ، انڈیا ٹو ڈے نے تو پیغام واضح دے دیا ہے کہ اس ملاقات کے باوجود بھی اس کی پاکستان کے خلاف پالیسی تبدیل نہیں ہو گی ۔ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے مظاہرے ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہو چکے ہیں اور جواب ایسا ہی دیا گیا ہے ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید آخری ملاقات کے طور پر یہ ملاقات کرائی گئی ہو لیکن دفتر خارجہ پاکستان نے تو یہی کہا ہے کہ یہ آخری ملاقات نہیں تھی ۔۔۔ ایک جاسوس کے بارے میں تمام تفتیش مکمل ہو چکی اس کے بارے میں عدالت کا فیصلہ آچکا اب اس کی سزائے موت کے وقت کا انتظار تھا کہ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے مظاہرے شروع ہو گئے‘ بھارت کے حکمرانوں کا رویہ یہ رہا کہ جب کشمیر پر لچک دکھائی تو وہ کشمیر کے پاکستانی زیر کنٹرول حصے پر بھی دعویٰ کر دیتا ہے ۔ واجپائی نے دورۂ لاہور سے لے کر آج تک بلکہ اس سے قبل بھی بھارتی رویہ ’’میں نہ مانوں‘‘ اور اٹوٹ انگ کی رٹ والا تھا۔ واجپائی نے لاہور میں زبر دست استقبال کے بعد دہلی پہنچتے ہی کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ کی رٹ لگا دی ۔ اندرا گاندھی تو نہرو کی بیٹی تھی لیکن راجیو اور یگر حکمران بھی اسی طرح کرتے رہے ۔ پاکستان بین الاقوامی قوانین کی پاسداری بھی کرتا رہا اور لچک بھی دکھاتا رہا جب بھی کشمیریوں کے حق کی بات کی بھارت کا دماغ خراب ہو جاتا ۔ ہمارے خیال میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے حوالے سے باب ہی بند کر دیا جانا چاہیے ۔ اس کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کی تمام شرائط پوری کی جا چکی ہیں بھارت نے عالمی عدالت تک معاملہ لے جا کر صرف وقت گزاری کی ہے جبکہ اپنے ملک میں ان لوگوں کو پھانسیاں دیدیں جن پر محض یکطرفہ الزامات تھے پاکستان اور کشمیری مطالبے کرتے رہے اور ان کو موت کی سزائیں دے دی گئیں ۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ کلبھوشن کو اس کے انجام تک پہنچا دے ۔ جس طرح امریکا ، بھارت ، اسرائیل ، روس ، یہاں تک کہ ایران ، افغانستان اور دوسرے ممالک بھی اپنے مفاد اور قومی فیصلوں کے سامنے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے پاکستانی علاقے میں فائرنگ ، در اندازی اور گولہ باری تو بھارتی معمول ہے ۔ امریکا تک پاکستان کے ساتھ دوستانہ کے بجائے معاندانہ رویہ رکھتا ہے ۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے کسی مظاہرے کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا ۔ پاکستانی حکومت نے اس سے درخواست کی تھی کہ اپنا میڈیا بھی ساتھ بھیجے اور پاکستانی میڈیا سے کلبھوشن کی بیوی اور ماں کچھ بھی کہنا چاہیں تو کہہ دیں لیکن بھارت نے اپنا میڈیا بھی نہیں بھیجا اور پاکستانی میڈیا سے بھی انہیں بات نہیں کرنے دی ۔ اس میں بھارت کے خوف اور خدشات کا زیادہ دخل تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے بند کنٹینر اور کسی کی موجودگی کے بغیر ملاقات کرانے کا نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔ اب بھارتی پروپیگنڈا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کے اہلخانہ پر دباؤ تھا ، کلبھوشن نے تشدد کی شکایت کی ہے اور یہ کہ وہ اس کا بیان زبردستی یا دھوکے سے لیا گیا ہے ۔ بہر حال یہ سب تو پروپیگنڈے کے زمرے میں آئے گا ۔ پاکستان اس کا منہ توڑ جواب نہیں دے پائے گا ۔ خیر سگالی کا ایک جواب یہ ہو سکتا تھا کہ بھارت یٰسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کی ملاقات اپنے شوہر سے کرانے کا اعلان کر دے ۔۔۔ لیکن بھارت سے ایسی توقعات یا مطالبات کا کوئی فائدہ نہیں ۔ مشال ملک نے بھارتی حکام سے ملاقات کرانے کی اپیل کی ہے لیکن یقینی طور پر بھارت کوئی جواب نہیں دے گا ۔ بھارت کے رویے کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی امریکا و اسرائیل کی طرح کا ملک ہے ۔ خیر سگالی کے جذبات اور جاسوس کے اہلخانہ سے ملاقات نے پاکستانی تاریخ کا ایک نہایت بد نما داغ اور تکلیف دہ باب سامنے لا کر رکھ دیا ہے ۔ بھارتی جاسوس کے لیے قائد اعظم کے یوم ولادت پر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ تو کیا گیا لیکن پاکستانی حکمرانوں کی انسانی ہمدردی ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں کہاں چلی جاتی ہے ۔ عافیہ کو14برس مکمل ہو چکے اتنی سزا تو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سزاؤں کے زمرے میں آتی ہے ۔ عافیہ اور کلبھوشن کا کوئی موازنہ نہیں عافیہ بے قصور ہے ، کلبھوشن جاسوس ہے اور اعتراف کر چکا ۔ عافیہ پر دہشت گردی کا کوئی الزام بھی نہیں تھا اس پر جو الزام لگایا گیا وہ بھی ثابت نہیں ہو سکا اس کی رہائی کے لیے دو امریکی صدور کی جانب سے مواقع ملے لیکن پاکستانی حکمرانوں نے دونوں مواقع ضائع کیے میاں نواز شریف ، ممنون حسین ، بے نظیر بھٹو ، صدر زرداری ، یوسف رضا گیلانی ، راجا پرویز اشرف ، شاہ محمود قریشی ، اور اب خواجہ آصف ان سب کے سامنے صرف ایک پرچہ لکھنے کا مسئلہ در پیش تھا لکھنے کا بھی نہیں بلکہ اس پر دستخط کرنے تھے کہ عافیہ پاکستانی شہری ہے اسے پاکستان کے حوالے کیا جائے ۔ عافیہ کے امریکی وکیل تو کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی حکمران ڈھنگ سے بات کرتے تو عافیہ کی سزا معاف کر کے اسے پاکستان بھیج دیا جاتا۔۔۔ لیکن نہایت حیرت انگیز اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستانی اقتدار کے تمام ایوانوں ور مرکزوں میں عافیہ کے حوالے سے ایک پر اسرار خاموشی ہے ، کلبھوشن کے لیے انسانی ہمدردی کی تڑپ کا مظاہرہ یقیناً عالمی سیاسی تناظر میں پاکستان کے لیے اچھا تھا لیکن پاکستانی قوم کی بیٹی قوم کی عزت اور عفت امریکی قید میں پڑی ہے اس کے لیے دو سطور لکھنے میں جان جا رہی ہے ۔ یہ حکمران امریکا جا کر بے عزتی برداشت کرتے ہیں ، ذلت آمیز تقریریں اور جملے ہدایات اور احکامات سنتے ہیں ‘پیشانی پر بل تک نہیں آتا ارے قوم کی بیٹی کے لیے ان کے قدموں میں بھی گر جاتے تو کیا ہو جاتا ملک میں تو عزت و وقار سے رہتے ۔ پاکستانی حکمران اس معاملے میں قوم کے قرض دار ہیں ۔