بھارت کی شر پسندی

317

سیدنا علیؓ کرم اﷲ وجہہ کا ارشاد ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ پاکستان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بیوی اور والدہ کو ملاقات کی اجازت دی تھی۔ یہ اجازت بھارتی حکومت کی درخواست پر دی گئی تھی۔ کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کے جرم میں فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ یہ رعایت کی گئی۔ پھانسی کی سزا پانے والوں کی ان کے اہل خانہ سے آخری ملاقات کرادی جاتی ہے۔ لیکن وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بڑی عجیب بات کہی ہے کہ یہ آخری ملاقات نہیں ہے۔ گویا آنا جانا لگا رہے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت بھی نئے نئے الزامات لگاتا رہے گا۔ یذہ تو ظاہر ہے کہ خطرناک جاسوس اور دہشت گرد سے یہ ملاقات ’’کسی‘‘ کے کہنے پر کرائی گئی ہے۔ وہ کسی عالمی عدالت انصاف بھی ہوسکتی ہے یا امریکا کا دباؤ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے عاقبت نا اندیشی کے سبب معاملے کو طول دے رکھا ہے اور بھارت کو یہ موقع ملا کہ اس نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرلیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب بھارتی دہشت گرد کو موت کی سزا سنائی گئی تھی اسی وقت فیصلہ کردیا جاتا۔ کلبھوشن کے اعترافی بیانات کے علاوہ اس کے خلاف یہی ثبوت کافی ہے کہ وہ مسلمان کے نام سے بھارتی بندرگاہ چاہ بہار میں کام کررہاتھا۔ اسے نام بدلنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ گزشتہ منگل کو پاکستان نے ایک دہشت گردکے لیے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کروائی لیکن بھارت نے اس پر الزامات کا طوفان برپا کردیا۔ بھارتی سفارتکاروں نے کلبھوشن کی اہلیہ کے جوتے میں جاسوسی اور ریکارڈنگ کا آلہ نصب کردیا لیکن پاکستانی حکام کی ہوش مندی کے نتیجے میں یہ آلہ نکال لیا گیا جس پر بھارت تلملارہا ہے۔ یہ آلہ پاکستانی حکام کے قبضے میں ہے جس کا جائزہ لیا جارہاہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے کلبھوشن کی اہلیہ کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی جو ناکام بنادی گئی۔ کلبھوشن کی اہلیہ کا منگل سوتر اور ان کی بندیا اتروالی گئی تھی جس پر بھارتی حکام خوب واویلا کررہے ہیں۔ لیکن جاسوسی کے ایسے حساس اور بہت چھوٹے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو ایک بندیا یا منگل سوتر میں بھی چھپائے جاسکتے ہیں۔ خاتون کے جوتے سے چپ تو برآمد ہو ہی گئی ہے۔ غالباً کوشش یہ تھی کہ کلبھوشن کی باتیں ریکارڈ کی جائیں اور وہ یقیناًاپنی بے گناہی کی دوہائی دیتا اور اعترافی بیانات کو جبر کا نتیجہ قرار دیتا۔ ایسی ریکارڈنگ کی بھارت خوب خوب تشہیر کرتا۔ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے بھارت کو کسی جواز کسی ثبوت کی ضرور کبھی نہیں رہی۔ اس سے پہلے بھی بھارت کے دو جاسوس پاکستان میں پکڑے گئے تھے جن میں سے ایک کو بے گناہ قرار دے کر رہا کردیاگیا تھا اور اس کی رہائی میں ایک پاکستانی این جی او کا بھی اہم کردار تھا۔ رہائی پانے والے جاسوس نے بھارت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی اعلان کیا کہ وہ جاسوسی کے مشن پر تھا۔ گویا وہ پاکستانی حکام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دوسری طرف بھارت کتنے ہی بے گناہوں کو بلا تامل پھانسی پر چڑھاچکا ہے۔ کشمیر ی مجاہد عبدالقیوم بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دینے کے بعد اس کی لاش بھی لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی۔ وہ جو مقبوضہ کشمیر کے مجاہدوں کو پاکستانی جاسوس قرار دے کر شہید کردیتاہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ وہ کشمیر کے اسیر رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال کو اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اپنی شرپسندی کا مظاہرہ کررہا ہے۔