بے نظیر کے قاتل اب تک نامعلوم 

353

پاکستان کی سابق خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کو 10برس گزر گئے۔ لیکن اس طویل عرصے میں ان کے قاتلوں کا تعین نہیں ہوسکا۔ اس عرصے میں بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری اور بی بی کی پارٹی 5برس تک حکومت کرگئی لیکن نہ تو یہ تصدیق ہوسکی کہ بی کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا کھلی چھت سے نیچے بیٹھتے ہوئے لیور سے ٹکراکر ہوئی۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ بی بی کے قاتل کون تھے۔ اب تک بہت سی باتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ مثلاً یہ کہ بے نظیر بھٹو کو کس نے گاڑی میں کھڑا ہونے کا مشورہ دیا تھا کہ وہ نشانہ بن گئیں۔ ان کا موبائل فون بھی غائب کردیا گیا جس سے معلوم ہوجاتا کہ ان کو کس کا فون آیا تھا۔ سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے گزشتہ منگل کو انکشاف کیا ہے کہ بے نظیر کا ایک قاتل افغانستان میں اطمینان کی زندگی گزار رہا ہے۔ عبدالرحمن ملک نے اس کو خودکش حملہ آور قرار دیا ہے لیکن خودکش حملہ آور زندہ نہیں رہتے۔ عبدالرحمن ملک خود بھی شکوک وشبہات کی زد میں رہے ہیں کہ حادثہ ہوتے ہی وہ بی بی کی خبر لینے کے بجائے بھاگے ہوئے زرداری ہاؤس کیوں گئے۔ پیپلزپارٹی نے ان سے کبھی کچھ پوچھا بھی نہیں۔ پیپلزپارٹی نے تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی ادارے کی خدمات بھی حاصل کیں جس کو پاکستان کے حالات کا کچھ پتا نہیں تھا۔ آصف علی زرداری نے اعلان کیا تھا کہ وہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ ایسا تھا تو وہ بتاتے کیوں نہیں۔ کسی اور کو نہ سہی، اپنے برخوردار بلاول زرداری ہی کو بتادیں جن کو شکوہ ہے کہ ان کی والدہ کو انساف نہیں ملا تو کسی اور کوکیا ملے گا۔ ان کو یہ شکوہ اپنے والد سے کرنا چاہیے تھا۔ بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر پرویز مشرف کو قاتل قرار دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن ان کے والد ہی نے پرویز مشرف کو اعزاز کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ اگر پرویز مشرف پر قاتل ہونے کا شبہ ہے تو ثبوت فراہم کیے جانے چاہییں تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بی بی جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت کرکے ہی واپس آئی تھیں اور وہ انہیں واپس آنے سے روک رہے تھے۔ پھر جب کراچی مین ان پر خطرناک حملہ ہوچکا تھا تو انہیں محتاط ہوجانا چاہیے تھا۔ ان کو مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ نہ کریں۔ ایک رات پہلے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی نے انہیں سمجھایا بھی تھا لیکن بے نظیر کسی اور کے مشوروں پر عمل کررہی تھیں۔ ان کے جلسے میں ان کا ایک محافظ عجیب اشارے کرتا ہوا دیکھا گیا اور پھر شہنشاہ نامی اس شخص کو کراچی میں قتل کردیا گیا۔ قتل کی کسی بھی واردات میں تفتیشی ادارے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قتل کا فائدہ کس کو ہوگا۔بے نظیر کے قتل سے جنرل پرویز مشرف کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تاہم سب سے زیادہ فائدہ آصف علی زرداری کو پہنچا جنہوں نے بیرون ملک سے آکر پارٹی کی صدارت سنبھالی اور پھر صدر مملکت بن گئے۔ بے نظیر کی زندگی میں شاید یہ ممکن نہ ہوتا۔ پھر بے نظیر کی ایک وصیت بھی تلاش کرلی گئی۔ لیکن گزشتہ 10برس میں قاتل تلاش نہ کیے جاسکے۔ اس کی ساری ذمے داری آصف زرداری اور پیپلزپارٹی پر عاید ہوتی ہے جس نے بے نظیر کے نام پر حکومت حاصل کی اور اب ہر سال دھوم دھام سے برسی مناتی ہے۔ پیپلزپارٹی گزشتہ 9برس سے سندھ پر حکمران ہے اور سندھ کا حال سب کے سامنے ہے۔ بلاول زرداری نعرے لگاتے رہتے ہیں کہ ہم ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ اس سے پہلے وہ صوبہ سندھ پر توجہ دیں جہاں کے رائے دہندگان کی مدد سے پیپلزپارٹی کو سندھ میں اقتدار ملتا ہے۔ اب تو بلاول کی نظر یں اسلام آباد پر جمی ہوئی ہیں وہ اس ملک کا آئندہ وزیراعظم بننے کے دعدے کررہے ہیں۔ لیکن ابھی تک تو وہ اپنے مخالفین پر تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ منگل کو بلاول نے ایک بار پھر اپنے حریفوں کو للکارا ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔ اس کا تعین کرنے کا وقت قریب آلگا ہے اور 2018میں طے ہوجائے گا کہ کس دیے میں کتنی جان ہے کیونکہ ہواؤں کی تندی اور تیزی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں دوسروں کے بجائے اپنے سیاسی مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ سندھ کے بیشتر رائے دہندگان تو آنکھ بند کرکے ووٹ ڈالتے ہیں لیکن پورے ملک میں یہ صورتحال نہیں ہے لوگ کام بھی دیکھتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب اور خیبرپختونخواکے عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنی رائے بتائیں گے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی کوئی کارکردگی پنجاب ، خیبرپختونخوااور بلوچستان میں نظر نہیں آتی۔ ایسے میں بلاول کا امتحان سخت ہوگا۔ اپنی والدہ اور نانا کی میراث ضروری نہیں ہے کہ اب بھی کام آئے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ہمدردی کا ووٹ کام کرتا رہا ہے۔ چنانچہ بے نظیر کے قتل اور اس سے پہلے ان کے والد بھٹو کی پھانسی سے ہمدردی کاووٹ حاصل کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ تادیر نہیں ہوگا اور لوگ کارکردگی پر کھنے لگتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کی برسی پر سندھ حکومت ہر سال کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کرتی ہے۔ اس کا کچھ حصہ سندھ کی بہتری پر خرچ کیا جائے تو مرحومہ کی روح خوش ہوگی۔بہر حال، یہ ذمے داری اب بلاول کی ہے کہ وہ اپنی والدہ کے قاتلوں کو بے نقاب کریں۔