آئی ایم ایف کا مگرمچھ اور دیوالیہ پن کی کھائی

429

عارف بہار
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور روز مرہ کے اخراجات کے لیے قرض لیے بنا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کی مالی مشکلات کے حوالے سے ایف پی سی سی آئی کی ریجنل کمیٹی برائے صنعت کے چیرمین اور ہری پور چیمبر آف کامرس کے راہنما عاطف اکرام شیخ کا ایک چونکا دینے والا بیان اخبارات میں شائع ہو ا ہے۔ بیان کے مندرجات کچھ یوں ہیں ’’اقتصادی راہ داری کی قیمت پر آئی ایم ایف سے کوئی معاہدہ نہ کیا جائے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ عوام میں زبردست ردعمل ہوگا بلکہ اس کے سیاسی نتائج بھی منفی ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے فیصلوں میں امریکا کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور اسے سی پیک پسند نہیں جب کہ پاکستان کی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے قرض کی درخواست کا منتظر ہے۔ پاکستان کے لیے امریکا کی پالیسی تبدیل ہوتے ہی آئی ایم ایف کی پالیسی بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ اگلے برس جون تک زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم اور ستمبر تک ختم ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اگلے ڈیڑھ برس میں کم وبیش بتیس ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ سی پیک اور دوسرے ذرائع سے آٹھ ارب ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ چوبیس ارب ڈالر کا مزید انتظام کرنا پڑے گا‘‘۔
اگر پاکستان کی معاشی مشکلات کے حوالے سے یہ تجریہ درست ہے تو پھر پاکستان اس وقت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی کیفیت سے دوچار ہے۔ سامنے آئی ایم ایف کا مگر مچھ منہ کھولے کھڑا ہے اور پیچھے معاشی دیوالیہ پن کی گہری کھائی ہے۔
دنیا کا انتظام اس وقت مختلف اداروں کے ذریعے امریکا کے کنٹرول میں ہے۔ اقوام متحدہ ان میں سب سے اہم ادارہ تھا۔ فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ نے امریکا کے چنگل سے نکلنے کی معمولی سی کوشش کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی سالانہ گرانٹ میں اٹھائیس کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی کٹوتی کر دی۔ اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے ٹرمپ کے پر رعونت انداز کو آگے بڑھاتے ہوئے اقوام متحدہ کی سالانہ گرانٹ میں کٹوتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب کسی کو امریکا کی سخاوت کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اقوام متحدہ کی ناکامیاں اور شہ خرچیاں سب کے سامنے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کے بجٹ میں دو سو پچاسی ملین ڈالر کم کیے جاتے ہیں۔
امریکا اقوام متحدہ کو گرانٹ دینے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اس ادارے کے مجموعی بجٹ کی بائیس فی صد ہوتی ہے جب کہ باقی بجٹ دنیا کے دوسرے تمام ملک مل کر فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ ستمبر تک اقوام متحدہ کے بجٹ میں چونسٹھ کروڑ ڈالر کی کٹوتی کی گئی تھی جب کہ امریکا کے دفاعی بجٹ میں پندرہ ارب ڈالر کا اضافہ کیا تھا۔ یورپی یونین بھی اس کٹوتی پر تنقید کیے بغیر نہ رہ سکی تھی اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے کہا تھا کہ عالمی مسائل کا پرامن حل بھی اسی قدر ضروری ہے کہ جتنا عسکری حل۔ اقوام متحدہ کے صحت، خوراک اور اطفال سے متعلق پروگرام امن کے لیے کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کو آزاد روش کی طرف چل پڑنے کے اس فیصلے کی قیمت کئی اور معاندانہ امریکی اقدامات کی صورت بھگتنا باقی ہے۔ امریکا کی اس کٹوتی سے اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں جاری عوامی بھلائی اور بہبود کے منصوبے متاثر ہوں گے جن میں ماحولیات، تعلیم اور صحت کے شعبے بھی شامل ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کو بھی مغرب میں قائم ان عالمی اداروں میں شمار کیا جاتا ہے جن پر امریکا کا اثر رسوخ ہے۔ کلبھوشن یادیو کے سیدھے سادے جاسوسی اور دہشت گردی کے مقدمے کو جس طرح عالمی عدالت انصاف نے بہ اہتمام قبول کرکے فریقین کو نوٹسز جاری کیے اور ایک باقاعدہ مقدمے کا رنگ دے کر سماعت شروع کردی وہ کسی اشارے ہی کا کمال ہے۔ وگرنہ ایسی کتنی ہی درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازعات پر جو کچھ ہوا وہ پاکستان کے لیے خوش کن نہیں رہا۔ آئی ایم ایف بھی ایسا عالمی ادارہ ہے جس کے ذریعے امریکا مختلف ملکوں کی معیشتوں پر اثر انداز ہوتا اور ان سے اپنے فیصلے منواتا ہے۔ امریکا کی پاکستان سے برہمی کا عالم یہ ہے کہ اب امریکی حکمرانوں کو پاکستان کو کوسنے، طعنے دیے بغیر کھانا تک ہضم نہیں ہوتا۔ وہ نیند میں بھی محفوظ پناہ گاہوں کا منتر پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا کے یہ بگڑے اور بدلے ہوئے تیورآئی ایم ایف کی شرائط کو مزید سخت یہاں تک بلیک میلنگ کی صورت بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔
میاں نوازشریف اس صورت حال کو اپنی نااہلی سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ان کے منظر سے ہٹ جانے کی وجہ سے ہوئی۔ تو گویا وہ شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کو اپنا جانشین نہیں سمجھتے۔ قوم کو تو پتا نہیں کہ لندن میں محو استراحت وزیر خزانہ اسحاق ڈار عہدے پر ہیں یا نہیں؟ مگر رپورٹس ہیں کہ وہ اب بھی واٹس ایپ پر ضروری معاملات نمٹناتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکومت پاکستان کو اقتصادی خودکفالت کے متبادل ذرائع تلاش کرنے چاہئیں۔ نوٹ چھاپنے اور قرض لے کر کام چلانے کی روایتی پالیسی اب کارگر نہیں رہے گی۔ حکمران اگر پیٹ پر ایک پتھر باندھنے پر آمادہ ہوں تو عوام دو پتھر باندھ کر سکتے ہیں مگر خودی، خود انحصاری اور خدا انحصاری کی راہ پر چلنے کا فیصلہ تو کیا جائے۔