پاکستان میں اعتماد واعتبار کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ مختلف ادوار سے گزرتی رہی ہے، کبھی آمر کے سامنے سرنگوں ہوگئی اور اُسے مقتدرِ مطلق مان کر بن مانگے آئین کو تختۂ مشق بنانے کے اختیارات بھی تفویض کردیے اور خارجی اسباب کے سبب 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں طاقت ملی تواس تحریک کے سرخیل چودھری اعتزاز احسن کہتے ہیں: ’’عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے نتیجے میں ہمیں متکبر جج اور متشدِّد وکلا ملے‘‘، یعنی ماحصل خسارہ ہی رہا۔ جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کے ہمہ مقتدِر ہونے کے بعد اُن کا ظرف چھوٹا پڑ گیا، ہر صاحبِ منصب کی تحقیر یعنی مردم آزاری کو انہوں نے شِعار بنالیا، آج انہیں پتا چل گیا ہوگا کہ اخلاقی برتری کے بغیر منصبی اختیارات کے طفیل ملنے والی عزت عارضی ہوتی ہے۔ افسوس کہ اُن کے بعد بھی اعلیٰ عدلیہ کے بعض قابلِ احترام ججوں نے اِسی روش کو اختیار کیے رکھا، تمام مقتدر اداروں اور اشخاص کی اہانت کا سلسلہ جاری رہا، جج سیاسی مقدّمات سے لطف اندوز ہوتے رہے، ٹیلی ویژن چینلز پر اپنے فرموداتِ عالیہ کے مسلسل ٹِکر چلنے سے اُن کی انا کو تسکین ملتی رہی، خبرناموں اور سیاسی مباحثوں میں اُن کے تذکرے اورتصویروں کی نمائش ہوتی رہی، ایسا لگا کہ وہ مُقَنِّنَہ، مُقتدرہ اور سیاست سمیت تمام شعبوں کے اتالیق ہیں۔ لیکن اب وہ اعتماد و اعتبار کے بحران سے دوچار ہیں اور دہائی دے رہے ہیں کہ ہمیں لوک داستانوں کے ’’بابا‘‘ کا افسانوی مقام دیا جائے، لیکن یہ مقام بڑے ایثار، اخلاص وبے ریائی اور ریاضت کے بعد نصیب ہوتا ہے، منصب کی طاقت سے اسے پانا ایک حسین خواب ہوسکتا ہے۔
یہ مقولہ تو سنتے چلے آرہے ہیں: ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘‘۔ گزشتہ دنوں عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے لاہور کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’انصاف میں عُجلت، انصاف کے قتل کے مترادف ہے‘‘۔ بصدادب گزارش ہے کہ ہمارے نظامِ عدل میں مندرجہ بالا دونوں نقائص موجود ہیں، ممتاز حسین قادری مرحوم کا کیس عاجلانہ انصاف (Justice hurried) اور آسیہ مسیح کا کیس آجِلانہ انصاف (Justice delayed) کی دو نمایاں نظیریں ہیں۔
ہماری رائے میں الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا پر عالی مرتبت جج صاحبان کے ریمارکس کے ٹِکر چلانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ جج صاحبان تو ’’قانونِ تحفظِ ناموسِ عدالت‘‘ کے شیشے کے گھر میں تشریف فرماہوتے ہیں، کیوں کہ اس قانون کے نفاذ کے مُدّعی اور منصف بھی وہ خود ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے کے خلاف داد رسی کے لیے بھی کوئی عدالتی فورم بھی دستیاب نہیں ہے۔
مجھے جب بھی فرصت ملتی ہے، مغربی ممالک کا الیکٹرونک میڈیا دیکھ لیتا ہوں، وہاں یہ مناظر نظر نہیں آتے، عدالتیں اپنے دائرۂ کار میں خاموشی سے کام کر رہی ہوتی ہیں، جج نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب عالی مرتبت جج صاحبان زیادہ بولنے لگے ہیں، اس سے نمود کی ایک نفسیات جنم لے رہی ہے جو معیاری اور مثالی عدل کے لیے تباہ کن ہے۔، پس بہتر ہے کہ یہ لائق وفائق مقدس شخصیات سیاہ جبہ اتار کر سیاست کے میدان میں آکر قوم کی رہنمائی فرمائیں۔ جنابِ اعتزاز احسن کے ریمارکس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالی مرتبت جج صاحبان کی مقدس زبانوں سے توہین آمیز ریمارکس سے فاضل وکلا کے جذبات بھی مجروح ہورہے ہیں، لیکن حدِّ ادب مانع ہے، فریادکے لیے کوئی دیوار گریہ بھی نہیں ہے۔ دوسری جانب وکلا صاحبان بھی اپنے آپ کو تمام تر قانونی واخلاقی حدود سے ماورا سمجھنے لگے ہیں، اس جارحانہ اندازکا نتیجہ یہ ہے کہ وضع داری و شرافت پر مبنی اقدار کے حامل ہمارے سینئر وکلا آج اس باوقار پیشے سے وابستگی کو اپنے لیے باعث شرم محسوس کر رہے ہیں، الغرض بنچ اور بار دونوں کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
ممتاز قادری شہید کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (ر) خواجہ محمد شریف اور جسٹس (ر) نذیر اختر ان کے وکیل تھے، ہمارے ایک فاضل علامہ سید حبیب الحق شاہ، جو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے شریعہ اور لا میں پوسٹ گریجویٹ ہیں، اُن کے معاون تھے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ میں سماعت اور بعد میں ریویو پٹیشن میں بھی عدالت عُجلت میں تھی اور ہمیں مناسب وقت دینے کے لیے تیار نہ تھی، ہمارے اصرار پر کہا گیا کہ آپ اپنے دلائل لکھ کر دے دیں۔ میں نے ان سے پوچھا: کیا فیصلے میں آپ کے دلائل کا حوالہ دے کر انہیں کسی دلیل سے رد کیا گیا ہے، انہوں نے کہا: ہمارے دلائل کا حوالہ فیصلے میں نہیں ہے۔ عالی مرتبت جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ہی اس بنچ کے بھی سربراہ تھے جو بعض مقدمات کو انتہائی عجلت میں انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن اسی عدالت کی الماریوں میں شاتمۂ رسول آسیہ مسیح کی پٹیشن کی فائل عرصے سے دبی ہوئی ہے اور اس کے لیے کسی کو عجلت نہیں ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کسی دن ہم سنیں کہ کسی بیماری کے سبب وہ ضمانت پر رہا ہو گئی، پھر یورپ کے کسی سفارت خانے کی مدد سے وہ یورپ جاپہنچی اور اسے وہاں شہریت اور دیگر اعزازات سے نواز دیا گیا، گزشتہ دنوں بعض اخبارات میں رپورٹ ہوا کہ اُسے یورپین یونین کی جانب سے ’’آندرے سخاروف ایوارڈ‘‘ سے نوازا جاچکا ہے۔ اس کا کیس اسی لیے دبایا ہوا ہے کہ اگر اس کی سماعت شروع ہوجائے، تو آزاد میڈیا، لبرل دانشور، غیر ملکی وسائل سے فیض یاب این جی اوز، مغربی حکومتیں اور مختلف ادارے آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ اس کا دباؤ نہ ہماری حکومت برداشت کرسکتی ہے، نہ ہی ہماری لائقِ صد افتخار عدلیہ یہ ہمالیہ سر کر سکتی ہے، اسی روِش کو چُنیدہ انصاف کہتے ہیں۔
حال ہی میں ایک قومی روزنامے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ پیمرا نے الیکٹرونک میڈیا کے مختلف چینلوں کو جو نوٹسز جاری کیے، اعلیٰ عدلیہ نے ان پر اٹھارہ سو امتناعی احکام جاری کر رکھے ہیں، ان کی شنوائی اور فیصلے کی نوبت نہیں آرہی، کیوں کہ میڈیا طاقتور ہے، ہماری عالی مرتبت عدالتوں کو اس طرح کے احکامِ امتناعی کے اجرا پر عالمی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ لاہور میں تقریباً دو کھرب روپے کا اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی اس کی روشن مثال ہے۔ چوبرجی کی تقدیس کی حفاظت کے لیے یہ منصوبہ، جس پر شاید اسّی فی صد سرمایہ خرچ ہوچکا تھا، کافی عرصہ تعطّل کا شکار رہا، اِس کا بوجھ قوم کو اٹھانا ہے۔ کسی پر دو سال میں فردِ جرم عائد نہیں ہوپارہی اور کسی کے مقدّمے سپرسانک رفتار سے چلانے کے احکامات صادر ہوتے ہیں، عدالت عظمیٰ کے عالی مرتبت جج اس کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کے فرموداتِ مبارکہ کا اشارہ کس طرف ہے۔
امریکا میں بعض ممالک کے خلاف سفری پابندیوں پر عائد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر ریاستی عدالتوں نے احکامِ امتناعی جاری کیے، تو وہاں کی عدالت عظمیٰ نے درمیانی راستہ نکالا اور بعد میں حتمی فیصلہ صادر کردیا۔ کراچی میں پی سی ہوٹل کے بالمقابل ستّر کے عشرے سے ایک کئی منزلہ عمارت کا ڈھانچہ کھڑا ہے اورکوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا، کیا یہ سرمائے کا ضیاع نہیں ہے۔ قابلِ احترام اعلیٰ عدلیہ سے گزارش ہے کہ طویل عرصے سے معلّق معاملات کے حل کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکال کر معاملات کو نمٹائیں، کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا تو وہاں کوئی ریاستی یا رفاہی ادارہ قائم کرنے کا حکم ہی صادر فرمادیں۔
الغرض ہمارا نظامِ انصاف دونوں اقوال کا امتزاج ہے، آئے دن ہم اخبارات میں ’’ازالۂ حیثیت عرفی‘‘ کے مقدمات کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں، جن کی شنوائی یا فیصلے کی نوبت نہیں آتی، ایسے قانونی نوٹس یا مقدمات مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے اندر شیشے کے گھروں میں بیٹھے ہوئے منہ زور لوگ اور عوامی جلسوں میں قابلِ احترام سیاسی رہنما دوسروں کی تذلیل کو اپنا شِعار بنائے ہوئے ہیں اور ہمارا نظامِ قانون وعدل لوگوں کی عزتوں کی حفاظت میں ناکام ہے۔ عدل میں تاخیر کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ دنوں قتلِ عمد کے الزام میں 19سال قید کاٹنے کے بعد جب مظہر حسین خواجہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر طبعی موت مرگیا تو اس کے دو سال بعد عدالت عظمیٰ نے اسے بے قصور قرار دے کر بری کردیا، سوال یہ ہے کہ اس کی 19 سالہ بے جواز قید کا حساب کون دے گا، عدالت پر لازم تھا کہ وہ حکومت کو حکم جاری کرتی کہ اُس کے ورثا کو مناسب مالی معاوضہ دے، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا، ’’Justice delayed‘‘ اور کسے کہا جاتا ہے۔