انٹر نیٹ پر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کی حرکات

362

انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق انٹر نیٹ پر 23 فیصد لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے کا سامنا ہے ۔ 8 ممالک میں سے 4 ہزار لڑکیوں پر کیے گئے اس سروے میں امریکا سر فہرست رہا جہاں 33فیصد خواتین نے اس طرح کے واقعات کی شکایت کی ۔ یہ اعداد و شمار ان خواتین سے متعلق ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر نازیبا صورتحال کا سامنا رہا ورنہ عملی طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سب سے زیادہ بھارت میں ہوتے ہیں ۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارت کے تعلیمی اداروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں جبکہ کسی واقعے کی رپورٹ درج کراتے ہوئے تھانوں میں ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور عدالتوں میں بھی تہمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کی اہم وجہ بھارتی خواتین میں جینز پہننے کا بڑھتا ہوا رجحان ہے ۔ حال ہی میں بھارت کے شہر پٹنہ کے ایک کالج میں لڑکیوں کے جینز اور پٹیالہ لباس پہننے پر پابندی لگا دی گئی ۔ کالج کی پرنسپل کے مطابق مسلم لڑکیاں اس طرح کا لباس استعمال نہیں کرتیں جبکہ ہندو طالبات کو دیکھ کر ہمیں شرمندگی ہوتی ہے ۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی خواتین میں حجاب کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن افسوس پردے کے نام پر ایسے قابل اعتراض برقعے مارکیٹ میں فروخت ہور ہے ہیں جو بظاہر غوطہ خوری کا لباس معلوم ہوتے ہیں ۔ ماڈرن خواتین کی طرف سے اب بھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پردہ دل کا ہوتا ‘آنکھوں میں حیا ہونی چاہیے ۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ معاشرے کی بری نظروں سے بچنے کے لیے خود کو چھپانا بھی ضروری ہے ۔ اس تناظر میں پاکستان میں ایک فلم بنائی گئی جس میں بے پردہ خواتین کو تاکنے والوں کو سزا دینے کے لیے قانونی شقیں تلاش کی گئی ہیں اور با پردہ خواتین کا مذاق اُڑایا گیا ہے ۔ حالانکہ پاکستان میں خواتین سے زیادتی اور ہراساں کرنے کے واقعات کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی بڑی وجہ خواتین کی اکثریت کا با پردہ ہونا ہے ۔ دین اسلام نے جہاں مرد و عورت کو نظریں جھکانے اور حیا دار ہونے کا درس دیا ہے وہیں عورت کو نامحرموں سے پردے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اس کے بعد حجاب کا انکار یا اس کی تاویل کرنا صریح الحاد ہو گا جس کی توقع ایک مسلمان سے نہیں کی جا سکتی ۔