سندھ میں ون ڈش

152

شادی ایک مذہبی فریضہ اور خوشی کا موقع ہے۔ نکاح کا موقع ہو یا ولیمہ سادگی کو فوقیت دینی چاہیے۔ اگر ہم نبی کریمؐ کی پیاری بیٹی کے نکاح کا موقع دیکھیں تو کھانے کا اہتمام بھی نہ تھا۔ کتنی بابرکت اور خوب صورت تھی وہ تقریب جس میں مہمانوں کی تواضع کھجوروں اور شربت سے کی گئی تھی اور اس دور میں ولیمہ میں مہمانوں کی تواضع حیثیت کے مطابق کھانے سے کی جاتی تھی۔ اگر ہم آج کے دور کی تقریبات کو دیکھیں تو جہاں دیگر رسوم میں پیسے کو بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے وہاں مہمانوں کی تواضع کے لیے کئی اقسام کے کھانے رکھے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں تو مختلف ذائقہ دار کھانوں سے بھری میزیں دیدہ زیب لگتی ہیں اور پھر لوگ ہرطرح کے کھانے اپنی پلیٹوں میں بھر لیتے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ڈھیروں کھانا جھوٹا کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک طرف کھانے اور پیسے ضائع ہوتے ہیں تو دوسری طرف دکھاوا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس طرح کی تقریبات نہیں کر سکتے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کچھ افراد اپنا نام اونچا کرنے کے لیے قرض لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور سال ہا سال اس کو ادا کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنے غریبوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ایسے حالات میں رزق کا ضیاع دیکھ کر دل دکھی ہو جاتا ہے۔ جہاں ملک کے کئی صوبوں میں ایک ڈش کی پابندی ہے تو صوبہ سندھ میں اس کو نافذ کیوں نہیں کیا جاتا۔ کئی دفعہ ایک کھانا رکھنے کی پابندی لگائی گئی مگر ناگزیر وجوہ کی بنا پر اس پر عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ ہماری صوبائی حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ یہاں کے عوام مستفید ہو سکیں۔
روبینہ اعجاز، کراچی