میاں منیر احمد
بردار امین صادق پر کیا لکھا جائے اور کیسے لکھا جائے، کس طرح انہیں مرحوم لکھا جائے جن سے محبت، الفت اور انس ہو، ان کے متعلق تعزیتی کلمات کہنا اور کچھ لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے بلاشبہ دنیا فانی ہے اور ایک روز یہاں سے واپس لوٹ کے جانا ہے، یہ اللہ کا نظام ہے اور قانون قدرت ہے اس سے فرار ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو پیدا کرتے وقت اسے دو راستے دیے اور ان میں کسی بھی ایک راستے پر چل کر زندگی گزارنے کا اختیار بھی دیا ہے ایک وہ راستہ جس پر چلنے والوں کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے اور دوسرا وہ راستہ جسے اختیار کرنے والوں کو بائیں ہاتھ میں ان کے نامہ اعمال دیے جائیں گے امین صادق نے اس دنیا میں اپنے لیے وہ راستہ چنا جس کے نتیجے میں انہیں نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ان سے پہلی ملاقات1995 میں ہوئی، پھر یہ ملاقات ایک تعلق میں بدلی، یہ تعلق پھر بڑھتا ہی رہا جسارت میں ان کی آنیاں جانیاں لگی رہیں لیکن کبھی ان سے تعلق ختم نہیں ہوا تھا، ذاتی زندگی میں وہ بہت ہی سادہ مگر پر وقار ذوق رکھتے تھے، گفتگو، انداز بیان، لکھنے کا سلیقہ اور دوستی کو بھائیوں جیسے تعلق میں تبدیل کرنے کا فن انہیں اللہ نے عطا کر رکھا تھا ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ اپنے امین صادق کی خبر ہے بہر حال تصدیق کی تو پتا چلا کہ امین صادق کا انتقال ہوگیا ہے وہ اپنے ربّ سے جاملے ہیں انہوں نے بہت ہی متحرک زندگی گزاری ہے شاید اسی لیے کہ انہیں بہت جلد اپنے ربّ کے پاس چلے جانا تھا ابھی کچھ روز قبل ہی انہوں نے فیس بک پر اپنی نواسی یا غالباً نواسے کی تصویر پوسٹ کی تھی اور تصویر پوسٹ کرتے ہوئے جن جذبات کا اظہار کیا تھا وہ الفاظ واقعی کچھ بتا رہے تھے کہ امین صادق کیوں ان الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔
جسارت، فرائیڈے اسپیشل اور سنڈے میگزین کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی گفتگو میں ہمیشہ پختگی ہوتی تھی، مزاح کا بھی پہلو ہوتا تھا۔ محنتی تھے اور لگن سے کام کرنے والے دوست تھے کبھی اپنے قد سے چھوٹی بات نہیں کی اپنی رائے جیسی بھی ہو، خوب کھل کر دیتے تھے اور پوری دلیل کے ساتھ بات کرتے تھے سیماب صفت امین صادق ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کے عادی تھے بکریاں پالنے کا شوق انہیں میر پور لے گیا اور وہیں پھر اپنے فارم ہاؤس کے لیے کام کر تے رہے اور اسے آگے بڑھاتے رہے تاہم پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ انہیں الیکٹرونک میڈیا میں بھی اپنے فن کا کمال دکھانے کا موقع ملا، آغاز میں رمضان المبارک کے لیے دستاویزی فلم ڈاکومینٹری بنائی، پی ٹی وی پر اسے دکھایا بھی گیا، اس کے بعد وہ پھر آہستہ آہستہ ڈراموں کی طرف آئے، بہر حال جو کام بھی کیا، جب بھی کیا دل لگا کر کیا اور خوب کیا، ان کے کسی بھی کام کو دیکھ لیں زمین سے محبت نظر آتی ہے پاکستان سے بے پناہ محبت تھی۔ دین اور فطرت کے قریب زندگی گزارنے کا جو رنگ امین صادق کی ذاتی زندگی کی کتاب میں ملتا ہے انہیں کے لواحقین کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ رنگ مٹنے نہ دیں اور اس رنگ کو بکھیریں، اپنی چھوٹی سی عمر میں معاشرے کی فلاح کے لیے، دوستوں کے لیے، اپنے خاندان کے لیے، اسلام اور پاکستان کے لیے جو کچھ وہ کر گئے ہیں انہیں یاد رکھا جائے۔
یہ بات درست ہے کہ وہ جمعیت میں رہے، اس کے بعد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، صف اول کے رہنما تو نہ بن سکے لیکن کمال یہ تھا کہ شفاف رائے کے حامل تھے، سچے اور کھرے تھے اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ سوچتے تھے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں یاد رکھے جاتے ہیں امین صادق انہی میں سے ہیں انہیں بہت یاد رکھا جائے گا مسکراتے ہوئے ملنا ان کی خوبی تھی اور یہی خوبی انہیں ہمارے دلوں میں زندہ رکھے گی ان کی دوسری خوبی یہ تھی انہوں نے محنت سے نام کمایا، کسب حلال والی خوبیوں کے لوگ تو اللہ کے دوست ہیں، امین صادق اللہ کے دوست تھے، اللہ مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے، آمین