قانونی سقم کی بھینٹ!

303

ناصر حسنی

نظام عدل سے متعلق ساری دنیا اس اصول پر عمل پیرا ہے کہ جج کے بجائے جج کے فیصلے کو بولنا چاہیے۔ جج بول پڑے تو فیصلہ، فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہوسکتا اور پھر۔۔۔ یہ فیصلہ کرنا محال ہو جاتا ہے کہ فیصلہ آئین کے مطابق ہوا ہے یا مفاد سے ہم آہنگ ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے شوہر کو قتل کرنے کے الزام میں اٹھارہ سال سے جیل کی صعوبتیں سہنے اور لوگوں کی جلی کٹی باتیں سننے والی ملزمہ کو باعزت بری کردیا ہے۔ جسٹس صاحب نے ملزمہ کو بری کرنے کے بعد احساس ندامت کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ملزمہ ناحق 18 برس کال کوٹھری میں رہی مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم ملزمہ کو زندگی کے وہ اٹھارہ برس واپس نہیں کرسکتے جو اس نے جیل میں گزارے ہیں۔ ان کا سر احساس ندامت سے جھکا ہوا تھا آواز بھرا رہی تھی، انگلیوں میں دبا ہوا قلم بھی لڑکھڑا رہا تھا اور وہ خود کو مجبور محض ظاہر کررہے تھے مگر وہ مجبور محض نہیں ہیں احساس ذمے داری سے فرار کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں ضمیر کی آواز کو بازگشت بننے سے روکنے کا جتن کررہے ہیں، کوئی بھی شخص جسٹس صاحبان کے اس فرمان کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ کسی مقدمے کا فیصلہ سنانے کے معاملے میں مجبور ہوسکتے ہیں۔
قانون انسانوں کے لیے وضع کیا جاتا ہے، انسان قانون کے تعرض کے لیے نہیں ہوتے جو قانون اخلاق اور انسانی فطرت سے متصادم ہو وہ قانون نہیں ہوتا جبر ہوتا ہے اور جبرقانون نہیں ہوسکتا۔ قانون کی ڈور جج صاحبان کے ہاتھوں میں ہوتی، اسے ڈھیل دینا اور کھینچنا ان کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے اور اس اختیار کو چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اپیل کا ابلیسی چکر چلایا جاسکتا ہے، مذکورہ ملزمہ بھی اس چکر میں اپنی زندگی کے اٹھارہ سال گنوا بیٹھی، جسٹس صاحب کا یہ فرمان کہ انہیں ملزمہ کے اٹھارہ برس ضائع ہونے کا بہت دکھ ہے، بہت افسوس ہے مگر یہ ان کی مجبوری ہے، ہمیں ان کے افسوس پر افسوس ہے اور ان کے اظہار دکھ پر بہت دکھ ہے کیوں کہ ان کے ریمارکس محض بہانہ بازی کے سوا کچھ نہیں ورنہ۔۔۔ وہ چاہیں تو کسی بے گناہ کو جیل کی کال کوٹھری میں بند رکھنے کے جرم میں حکومت وقت کو معاوضہ دینے کا حکم دے سکتے ہیں، جرم بے گناہی کا دکھ کم کرسکتے ہیں انصاف فراہم نہ کرنے والے جوانی کی بھینٹ لے کر بڑھاپے کو باعزت گزارنے کی سہولت فراہم کرسکتے ہیں۔
دیوانی مقدمات جو کسی کو دیوانہ بنانے کی غرض سے دائر کیے جاتے ہیں، نئی نئی اصلاحات سے ان کے قانونی سقم کو دور نہیں کیا جاسکتا جب قانونی سقم کی اصل اور بنیادی وجوہ پر غور نہیں کیا جاتا انہیں دور کرنے کی پُرخلوص کوشش نہیں کی جاتی، اصل وجہ سے سبھی واقف ہیں مگر انہیں دور کرنا نہیں چاہتے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے، کیسی سنگ دلی ہے کہ دیوانی مقدمے کی سماعت سے قبل مدعی سے حق ملکیت کا ثبوت ہی طلب نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں؟۔ کیا یہ جعل سازوں کی حوصلہ افزائی نہیں کہ سماعت کے دوران محکمہ مال اور رجسٹری آفس کی رپورٹوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، حالاں کہ حق ملکیت کا ثبوت محکمہ مال اور رجسٹری آفس ہی سے مل سکتا ہے مگر جج صاحبان ان کی رپورٹوں پر غور کرنا گوارا نہیں کرتے اس پر توجہ دینا ہی نہیں چاہتے۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی سند کی تصدیق کالج یا یونیورسٹی سے ہونے کے بعد عدالت فوری فیصلہ سنا دیتی ہے تو پھر حق ملکیت کے معاملے میں دہرا معیار کیوں؟ اور یہ سقم بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ پندرہ بیس سال کے بعد سول کورٹ کسی دیوانی مقدمے کا فیصلہ سناتی ہے، زیر سماعت میں مقدمے کو بے بنیاد قرار دیتی ہے تو پھر سیشن کورٹ اس کی اپیل کیوں منظور کرتی ہے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ ہائی کورٹ سیشن کورٹ کے فیصلے کی اپیل منظور کرلیتی ہے اور یہاں سے مایوس ہو کر مدعی سپریم کورٹ چلا جاتا ہے اور جو ’’بابا‘‘ کی پناہ میں چلا جائے بابا اسے سینے سے لگا لیتا ہے۔ آخر ایسا کب تک چلے گا۔ سائلین کب تک قانونی سقم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔