فلسطینی سفیر کی واپسی

381

عارف بہار

فلسطینی اتھارٹی نے لاہور میں اپنے ہی حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کی بنا پر اسلام آباد میں مقیم فلسطینی سفیر ولید ابو علی کو واپس بلالیا ہے۔ لاہور میں ہونے والے اس مظاہرے میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید بھی موجود تھے چوں کہ حافظ سعید بھارت اور امریکا کے لیے’’ سرخ رومال ‘‘بن چکے ہیں اس لیے بھارت نے اس مظاہرے میں فلسطینی سفیر کی شرکت پر احتجاج کیا جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ یروشلم ریلی میں فلسطینی سفر کی شرکت کو ایک نادانستہ غلطی تصور کیا گیا ہے جہاں وہ افراد بھی موجود تھے جن پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات ہیں۔ اس غلطی پر فلسطینی ریاست کی طرف سے سفیر کو واپسی کا حکم دیا گیا ہے۔ فلسطین کی وزرات خارجہ نے عالمی فورم پر بھارت کی حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا۔ پاکستان کی وزرات خارجہ نے بھی اس صورت حال پر محتاط سا بیان جاری کرتے ہوئے فلسطینی سفیر کی بیت المقدس کے حوالے سے منعقدہ ریلیوں میں شرکت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں کسی شخص سے آزادی اظہار کا حق سلب نہیں کرتیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اپنے سفیر کی واپسی ظاہر ہے کہ بھارت کے دباؤ کا نتیجہ ہے اور فلسطینی اتھارٹی اس وقت تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے ۔فلسطینی عوام کو اپنی جدوجہد کے لیے دنیا کے ہر حلقے کی حمایت درکارہے اور بھارت کی حمایت تو اس وقت ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں کیوں کہ اسرائیل اور بھارت اس وقت یک جان وقالب ہیں۔ دونوں کشمیر اور فلسطین کی تحریکوں کو مل کر باہمی اتحاد وتعاون سے کچل رہے ہیں اور اس کام کے لیے ایک دوسرے کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ آج فلسطینی اتھارٹی پر یاسر عرفات کی پی ایل او کا غلبہ ہے۔ اتھارٹی کے صدر محمود عباس یاسر عرفات کے دست راست رہ چکے ہیں۔ یاسر عرفات کی بھارتی حکمرانوں بالخصوص اندراگاندھی سے گاڑھی چھنتی رہی ہے مگر پاکستان اس وقت بھی فلسطینی کاز کا حمایتی رہا۔ یاسر عرفات کی قیادت کے پورے عہد میں انہوں نے پاکستان کی حمایت کے جواب میں ایک بار بھی کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت نہیں کی مگر جب وہ رام اللہ کے کمپاؤنڈ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں محصور و مجبور تھے تو بھارت اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا اور وسیع کررہا تھا۔ بھارت نے اسرائیلی اقدامات کی مخالفت میں مذمت کا ایک جملہ تک ادا نہیں کیا۔ اسی کی دہائی میں شیخ احمد یاسین کی قیادت میں فلسطین میں حماس فیکٹر کے اُبھرنے کے بعدفلسطین کی سیاسی حرکیات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ رفتہ رفتہ فلسطینی حریت پسندوں کا ایک قابل ذکر حلقہ پاکستان کے قریب آتا چلا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بھارت کے لیے تشکر کے جذبات اور سفیر کو واپس بلانے کا اقدام بلاشبہ پاکستان میں ان لوگوں کو اِترانے پر مجبور کرے گا جو پاکستان کی فلسطین اور اسرائیل پالیسی کو تصورات اور نظریات کی بجائے مفاد اور زمینی حقائق پر استوار کرنے کے حامی ہیں۔ یہ کمزور نہیں بلکہ ایک بااثر طبقہ اور حلقہ ہے صرف وقتی مصلحت کی خاطر کبھی کبھار اپنے ’’اسرائیل کو تسلیم کرو‘‘ ساز کی لے کم کرتا ہے۔ حافظ سعید کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی کے کسی اقدام پر ناک بھووں چڑھانا اس لحاظ سے قرین انصاف نہیں ہوگا کہ خود پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا میں حافظ سعید کو بوجھ قرار دے چکے ہیں۔ پاکستانی عوام حافظ سعید کو کیا سمجھتے ہیں؟ دُنیا کے لیے شاید یہ بات اہم نہیں اہم بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان کے وزیر خارجہ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟۔ اقوام متحدہ کی حیثیت اور اہمیت کیا ہے ؟اس سے ایک زمانہ آگاہ ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ عملی طور پر شریک جدوجہد حزب اللہ ،حسن نصراللہ بلکہ خود حماس اور اس کی قیادت کے بارے میں اقوام متحدہ نے کس دباؤ اور عجلت میں تبصرے کیے ہیں ؟۔ اگر یہ تبصرے مقدس اور محترم قرار نہیں پاتے تو پھر کسی پاکستانی شہری کے بارے میں بھی اقوام متحدہ کا تبصرہ بس تبصرے سے زیادہ اہمیت اور تقدس کا حامل کیسے ہو سکتا ہے؟۔ بھارت نے یروشلم کے حوالے سے قرارداد کا ساتھ فلسطینیوں کی محبت میں دیا ہے اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کے تناظر میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ عالمی سطح پرتنہائی اور رسوائی کا خوف تھا کہ جس نے بھارت کو اپنے جگری یار اسرائیل اور سرپرست امریکا کی مخالف سمت میں جانے پر مجبور کیا مگر یہ بھارت کی فلسطین دوستی کا مستقل مظاہرہ نہیں۔ تاہم فلسطین کے کاز کے ساتھ پاکستانی عوام کی حمایت میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کاکاروباری اصول کافرما نہیں بلکہ یہ غیر مشروط حمایت ہے جس کا تعلق قبلہ اوّل کی حرمت اور اسرائیل کی غیر قانونی توسیع پسندی سے ہے۔