ہمیشہ دیر کیوں؟

374

جانے کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے فیصلے بڑی تاخیر سے ہوتے ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ قید میں کسی کے مرجانے کے بعد اسے بری کیا گیا۔ اب عدالت عظمیٰ نے توہین مذہب کے الزام میں قید ایک شخص کو 9 سال بعد رہا کردیا۔ فیصلے کے مطابق 58 سالہ منشا کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں ۔ بہاولنگر پولیس نے اسے 29 ستمبر 2008ء کو قرآن کریم کے صفحات کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ایک گونگے بہرے شخص نے امام مسجد کو مطلع کیا جنہوں نے معاملہ پنچایت میں رکھا، جہاں ملزم کو مارا، پیٹا گیا اور پھر پولیس کے حوالے کردیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے 2009ء میں عمر قید کی سزا سنادی، عدالت عالیہ لاہور نے فیصلہ برقرار رکھا۔ ملزم کے پاس وکیل کرنے کے لیے رقم بھی نہیں تھی چنانچہ سرکار کی طرف سے وکیل فراہم کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے دو رکنی بینچ نے ایک گونگے بہرے شخص کی گواہی کو قانونی شہادت کے منافی قرار دے دیا۔ چلیے یہ فیصلہ تو ہوگیا اور 9 سال بعد ایک شخص کو رہائی مل گئی۔ لیکن اس کے 9 سال جو قید میں گزرے اس کا حساب کون دے گا؟ اس عرصے میں اس کے گھر والوں، عزیز و اقارب پر کیا گزری ہوگی جو ہر طرف سے لعنت ملامت کا نشانہ بنے ہوں گے۔ جو فیصلہ عدالت عظمیٰ سے 9 سال بعد ہوا وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی کرسکتا تھا کہ گواہ ناقابل اعتبار ہے جو نہ سن سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ پھر اس شخص کو پنچایت میں پیش کرکے اس پر تشدد کروایاگیا۔ اب جب وہ بے گناہ ثابت ہوگیا ہے تو اسے قید میں ڈالنے والوں سے حساب تو لینا چاہیے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ صادق گنج کی پولیس اور سیشن جج سب دباؤ میں تھے کہ اگر کارروائی نہ کی گئی تو علاقے کے لوگ ہنگامہ کردیں گے۔ نجی میڈیکل کالج بند کیے جارہے ہیں۔ مگر جب یہ قائم کیے جارہے تھے تو اسی وقت نوٹس کیوں نہیں لیا گیا۔ جن بچوں نے داخلے لے لیے وہ کہاں جائیں گے۔ظ