چیلنجز اور خطرات کا سال

421

2017 اپنے جلو میں بہت سے مثبت اور منفی واقعات لیے رخصت ہوچکا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ: ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ وقت کا دھارا یونہی گھڑیوں، ساعتوں، ماہ وسال اور عشروں کی گردش کے ساتھ بہتا اور بہتا چلا جاتا ہے۔ اس دوران انسان ایک پتلی کی طرح اپنے متعین اور معین کردار ادا کرکے رخصت ہوتے رہتے ہیں۔ وہ جنہیں اپنے وقت کا عہد زمانے، معاشرے اور عوام کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے اور جن کے بغیر جینے کا تصور بھی محال ہوتا ہے وقت کی گردش کے باعث تاریخ اور تاریخ کا ایندھن بن کر رہ جاتے ہیں اور پھر وقت ہی اس دور کے لوگوں کو ان ناگزیر سمجھے جانے والے کرداروں کے بغیر جینا سکھا دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ نام اور کردار عوام کی لوح حافظہ سے مٹ کر رہ جاتے ہیں۔ پس ثابت یہ ہوا کہ وقت ہی سب سے بڑا اتالیق ہے۔ وقت کا دھارا بہنا اور بدلنا ہی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔ عالمی سطح پر یہ سال بھی انسانیت کو آنسو اور آہیں دیے بغیر نہ رہ سکا۔ مطلق طاقت کے حصول وسائل کی چھینا جھپٹی، بالادستی کے رجحان، نظریاتی غلبہ کی خواہش اور اسلحہ کی فروخت کی ہوس نے کرہ ارض کو ماتم کدہ بنا رکھاہے۔ ان قباحتوں نے انسانیت کو ایک چلتی پھرتی لاش بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہو لہو مشرق وسطیٰ ان قباحتوں کا کھلا ثبوت ہے۔ افغانستان کا تار تار دامن اور خانہ جنگی کا ماحول انہی قباحتوں کی پیداوار ہے۔
2018 کا آغاز ہوگیا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ یہ سال کرہ ارض اور عالم انسانیت کے لیے زیادہ امید بھرا نہیں ہوگا۔ اس سال کرہ ارض کو بھی ماضی سے زیادہ گمبھیر مسائل اور سنجیدہ چیلنجز درپیش ہوں گے۔ عالمی سیاست میں بڑے مناصب چھوٹے لوگوں کے حصے میں آنے سے کئی حماقتوں کے سرزد ہونے کے خطرات پہلے سے زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
غربت، افلاس، جمہوریت، شہری آزادی اور انسانی حقوق جیسی اصطلاحات پہلے سے کہیں زیادہ عمل کی دنیا میں نظر آنے کے بجائے ڈکشنریوں اور عجائب خانوں میں رکھی کسی شے کی مانند ہو کر رہ جائیں گی۔ عالمی سطح پر کشمکش کا جو ماحول بنتا جارہا ہے کوئی بھی حماقت اس کشمکش کو مزید تیز کر سکتی ہے۔ اس سال دنیا کو سب سے زیادہ سنگین چیلنج عالمی سیاست کو کنٹرول کرنے والی طاقت امریکا کی طرف سے کئی قوموں اور ملکوں کے خلاف مہم جویانہ انداز فکر وعمل سے درپیش ہے۔ اس حوالے امریکا کے اخبار واشنگٹن ٹائمز میں معروف صحافی رابرٹ ڈبلیو میری کا ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’اسٹیٹس کو‘‘ چیلنجز کی زد میں‘‘۔ اس مضمون میں نئے سال کو129امریکا کے لیے 1941,74,89,2001 کی طرح اہم اور فیصلہ کن قرار دیا گیا ہے۔ یہ اہمیت دنیا کے عدم استحکام اور امریکی سیاست دونوں حوالوں سے اہم ہے۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ نئے سال میں کئی بڑے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ امریکا اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر بحرانوں اور چیلنجوں کی زد میں ہے ان میں سب اہم محاذ شمالی کوریا کو بتایا گیا جہاں امریکا کی چھیڑ چھاڑ کوئی بڑا حادثہ رونما کر سکتی ہے۔ کالم نگار کے بقول شمالی کوریا کے امریکا تک مار کرنے والے میزائل اور ڈلیوری سسٹم کو آگے بڑھانے کے لیے کم جونگ ان پرعزم ہیں۔ امریکا اس معاملے میں چین سے مدد طلب کررہا ہے مگر یہ چین سے بحران کے حل کی توقع خود فریبی کے سوا کچھ اور نہیں۔ کالم نگار کے بقول چین اپنی سرحد کے قریب نقل مکانی کرنے والوں کو سنبھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں کر رہا ہے۔ پانچ لاکھ پناہ گزینوں کے لیے خیمہ بستیوں کی تیاری اور خوراک ذخیرہ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ایران کو ایک ممکنہ خطرے کی جگہ بتایا گیا ہے۔ جہاں ایرانی حکومت ایٹمی طاقت کے حصول کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اسی طرح روس کے ساتھ ممکنہ تصادم کی جگہ یوکرائن کو بتایا گیا ہے۔ اس طرح نئے سال کو عالمی سطح پر بھونچال کا سال کہا گیا ہے جبکہ داخلی طور پر کئی بحرانوں اور چیلنجوں کا سال قراردیا گیا ہے۔ اسے وائٹ ہاوس کے لیے سخت ترین سال قراردیا گیا ہے۔ اس سال کو داخلی اور خارجہ حوالوں سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ بحران کا سال کہا گیا ہے۔ جس سے دنیا مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے امریکی حکومت اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے کوئی بیرونی محاذ بھی کھول سکتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ کہ اس فہرست میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں جہاں افغان پالیسی پر امریکا اور پاکستان کے درمیان اختلافات پورے عروج پر ہیں اور امریکا پاکستان میں یک طرفہ کارروائیوں کی برسرعام دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکا پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے کا مرتکب قرار دے رہا ہے۔ مبصرین یہاں بھی کسی چھوٹے موٹے تصادم کے امکانات کو مسترد نہیں کرتے مگر امریکی تجزیہ نگار نے افغانستان اور پاکستان میں امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ڈاون پلے کرکے کئی سوال کھڑے کیے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سردست کوئی نقطۂ اتصال اُبھرتا دکھائی نہیں دے رہا تو پھر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ کسی براہ راست تصادم میں اُلجھنے کے بجائے جنوبی ایشیا میں بھارت کے ذریعے کوئی مہم جوئی کر سکتا ہے۔