نرا ناشکرا امریکا

562

صدر ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز پر اپنے پہلے ٹیوٹر میں اچانک پاکستان پر برستے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو گزشتہ پندرہ برس میں 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امداد کے بدلے میں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا اور پاکستان امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتا رہا۔ اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں ملے گی۔
ٹرمپ کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ صدر بننے سے پہلے پراپرٹی ڈیلر ٹرمپ کو دنیا کی عصری تاریخ تو ایک طرف، خود اپنے ملک کی تاریخ کا قطعی کوئی علم نہیں ہے۔ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ 9/11 کے بعد جب امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس جنگ میں امریکا کی مدد کے لیے پاکستان پر دباو ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہاں تک کہ پاکستان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اس نے اس جنگ میں امریکا کی مدد نہ کی تو اسے پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔ اور جب پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے ڈر کے مارے گھٹنے ٹیک دیے اور پاکستان کو اس جنگ کی آگ میں جھونک دیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کے 80ہزار شہری اور فوجی امریکا کی اس آگ میں لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان نے افغانستان کے قریب اپنے تمام ہوائی اڈے، امریکی بمبار طیاروں کے لیے امریکا کے حوالے کر دیے، امریکا کو پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کی بلا مشروط اجازت دے دی تاکہ شدت پسندوں کے ساتھ بڑی تعداد میں پاکستانی شہریوں، بچوں، خواتین اور معمر افراد کو نشانہ بنائیں اور افغانستان میں فوجی سازو سامان کی ترسیل کے لیے کراچی سے کابل تک سارے راستے کھلے صحن کی طرح کھول دیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کا علم نہیں کہ 9/11کے بعد، گزشتہ سولہ برسوں میں امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگلے مورچوں پر لڑنے کی وجہ سے پاکستان کو 123ارب ڈالر کا تباہ کن نقصان برداشت کرنا پڑا پچھلے سولہ برسوں سے پاکستان کی معیشت ہر سال 7.7 ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرتی رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دی۔ غالبا ٹرمپ کو علم نہیں کہ خود امریکی وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے اعداد وشمار کے مطابق اس امداد میں سے44 فی صد رقم پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں امریکا کی لاجسٹک امداد اور فضائی خدمات فراہم کرنے پر خرچ کی ہے۔
ٹرمپ نے امریکا کے پچھلے صدور پر الزام لگایا ہے کہ پچھلے پندرہ سال میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر انہوں نے بے وقوفی کی ہے، لیکن یہ سابق صدور یہ کہنے میں غلط نہیں ہوں گے کہ ٹرمپ نے اس ضمن میں حقائق سے جس طرح لاعلمی ظاہر کی ہے اسے صرف جہالت کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
کاش کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو آج کل شمالی کوریا سے جنگ پر تلے ہوئے ہیں سن پچاس کی تاریخ پر نظر ڈال لیں جب پاکستان نے کوریا کی جنگ میں امریکا کی بھر پور حمایت اور مدد کی تھی۔ اور ان کا کوئی مشیر انہیں یہ بتائے کہ سن 54میں پاکستان نے ایک اتحادی کی حیثیت سے امریکا کی سرد جنگ میں اولین مورچہ میں شمولیت کے لیے امریکا کے سینٹو اور سیاٹو کے فوجی معاہدوں کی رکنیت اختیار کی تھی اور ان معاہدوں کے تحت پشاور کے قریب بڈ بیر کے امریکی ہوائی اڈہ سے سویت یونین پر جاسوسی کے لیے یوٹو طیارے نے پرواز کی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان کو سویت حملہ کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور سویت یونین نے پاکستان کو زچ کرنے کے لیے ہندوستان سے فوجی تعاون کی نئی راہیں تراش لیں۔
کاش ٹرمپ کے مشیر انہیں یہ بھی بتائیں کہ 1965میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے دوران جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا تو امریکا نے اپنے فوجی اور سیاسی اتحادی پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی بند کر دی تھی یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کا حریف ہندوستان سویت یونین سے بدستور اسلحہ حاصل کر رہا تھا۔ امریکی اسلحہ کی ترسیل پر پابندی کھلم کھلا پاکستان کو نہتا کر کے اسے ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کے مترادف تھی۔ پاکستان نے جب فوجی معاہدوں کی دُہائی دی تو امریکا نے کہا کہ یہ معاہدے ہندوستان خلاف نہیں ہیں بلکہ سویت یونین کے خلاف ہیں۔ لہٰذا امریکا، پاکستان کا دفاع کرنے سے معذور ہے۔
ان حقائق کے پیش نظر اب کوئی ٹرمپ سے پوچھے کہ کیا پاکستان نے امریکا سے جھوٹ بولا ہے اور اسے دغا دیا ہے یا اس کے برعکس امریکا نے ہر ہر قدم پر پاکستان کو دھوکا دیا ہے۔ مشرقی پاکستان پر جب ہندوستان نے حملہ کیا تھا تو امریکا پاکستان کو تسلی دیتا رہا کہ اس کا ساتواں بحری بیڑہ مشرق بعید سے خلیج بنگال کی جانب روانہ ہو گیا ہے۔ 45 سال ہو چکے ہیں اب تک تو یہ خلیج بنگال تک نہیں پہنچا ہے۔
امریکا کے ان رہنماؤں نے جنہیں ٹرمپ نے بے وقوف قرارد یا ہے انہوں نے در حقیقت خود پاکستان کے ساتھ سخت ناشکری کی پالیسی اختیار کی ہے۔ صدر اوباما ہی کو لیجیے، انہوں نے اپنی صدارت کے دوسرے دور میں پاکستان کی امداد میں بڑے پیمانے پر تخفیف کی ہے۔ 2014 میں انہوں نے پاکستان کی امداد کم کر کے 2177 ملین ڈالر کر دی تھی۔ اور 2015میں اس میں اور کمی کر کے 1404ملین ڈالر کردی تھی اور 2016 میں 1118ملین ڈالر تک کم کردی تھی۔ 2017 میں امریکی امداد صرف 526 ملین ڈالر رہ گئی تھی۔ ان اعداد وشمار کے پیش نظر ٹرمپ کو یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ پاکستان نے امریکی رہنماؤں کو بے وقوف بنا کر امداد اینٹھی اور اس کے بدلے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
عام خیال ہے کہ پاکستان کے خلاف ٹرمپ کے اس بیان کا مقصد افغانستان میں سولہ سال سے جاری طویل جنگ میں امریکا کی ذلت آمیز ناکامی پردہ ڈالنا ہے اور ممکن ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے بارے میں ٹرمپ کے اعلان کے خلاف قرارداد کی منظوری کی خفت مٹانے کی کوشش ہے۔
بہرحال صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد اب پاکستان کے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ ان کا سامنا کیسے ناشکرے امریکی صدر سے ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی عزت نفس، قومی حمیت اور وقار کی خاطر اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر امریکی صدر کی توہین آمیز باتوں کا حقائق کا آئینہ دکھا کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس وقت جب کہ ٹرمپ کے ہندوستان کو جنوبی ایشیاء کا چودھری بنانے کے عزائم ہیں، ایک جوہری طاقت کی حیثیت سے پاکستان کو ڈٹ کر امریکی عزائم کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ بلاشبہ پاکستان کے غیور عوام اس حکمت عملی میں حکمرانوں کا بھر پور ساتھ دیں گے اور اس کی کامیابی اور سر فرازی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی