جماعت الدعوۃ کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ

311

حکومت پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈے سے خوف زدہ ہوکر پہلے جماعت الدعوۃ پر پابندی لگائی پھر حافظ سعید کو نظر بند کیا، عدالت نے ان کے خلاف تمام الزامات مسترد کرکے انہیں بری کردیا بڑی مشکلوں سے ان کو رہا کیا گیا اور جب فلسطینی سفیر کی تصویر حافظ سعید کے ساتھ شائع ہوگئی اور بھارت کے دباؤ پر فلسطین نے اپنا سفیر پاکستان سے بلالیا تو پاکستانی حکومت کو ایک اور حماقت سوجھی۔ اب جماعت الدعوۃ اور اس کی فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ گویا یہ تنظیم نجی شعبے میں خسارہ کررہی تھی۔ حکومت تو پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، ٹیلی فون اور بجلی کے محکمے پرائیویٹائز کررہی ہے کہ اس سے یہ ادارے نہیں چلتے خسارے میں جارہے ہیں تو ایک ایسی پارٹی کو کیسے چلالے گی جو بھارت کا نقصان کررہی تھی۔ بھارتی الزامات کی روشنی میں تو اس اقدام کے بعد سارا ملبہ پاکستانی حکومت ہی پر گرے گا۔ یقیناًحکومت پاکستان اس کوشش میں ناکام ہوگی لیکن اگر اس کی نزدیک مسئلے کا حل یہی ہے تو وہ ایم کیو ایم کو بھی سرکاری تحویل میں لے لے جس کے لیڈر کی وجہ سے پوری دنیا میں ملک بدنام ہورہاہے۔ اس کے کئی دھڑے ہوچکے ہیں اور ہر دھڑا خود کو اصل قرار دے رہا ہے۔ ویسے کسی نہ کسی طرح جماعت الدعوۃ اور ایم کیو ایم سرکار کی تحویل ہی میں ہیں اب باضابطہ طور پر جماعت الدعوۃکو تحویل میں لینے کی بات کی گئی ہے۔ یہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ کسی ادارے یا کمپنی کے بجائے جماعت کو سرکاری تحویل میں لینے کا باضابطہ فیصلہ کیا جائے۔ حکومت پاکستان اس قسم کی حماقت سے گریز کرے ورنہ جماعت الدعوۃیا ملی مسلم لیگ کے قیام سے اسے جو نقصان ہونا تھا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہوگا۔ پارٹی بنانا اور چلانا ہر شہری کا حق ہے، حکومت اس آئینی حق سے ملک کے قانون پسند شہریوں کو محروم نہیں کرسکتی۔ ظاہری بات ہے کہ اگر حکومت نے یہ فیصلہ کر بھی ڈالا تو جو لوگ اور ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو فنڈز دے رہے تھے وہ حکومت کی تحویل میں تو اس ادارے کو فنڈز نہیں دیں گے۔ گویا یہ سیاسی اور معاشی مفادات کا فیصلہ ہے۔