شریف خاندان کو چار دہائیوں پر محیط اپنی طاقت، دولت، شہرت اور قسمت کے سفر میں دوسری بار سنجیدہ بحران نے آن گھیرا ہے۔ پہلا حقیقی اور سنگین بحران 1999میں فوج کی پتنگ کے ساتھ پیچ لڑانے کی خواہش سے پھوٹ پڑا تھا اور اس کا فیصلہ بھی طاقتور کی کامیابی کے اصول کے تحت مضبوط ڈور کے ہاتھوں کمزور ڈور کے کٹ جانے کہ صورت میں برآمد ہوا تھا۔ دوسرا حقیقی اور سنجیدہ بحران کم وبیش انہی خواہشات کے باعث آج ایک بار پھر درپیش ہے۔ ہر دوبار وہ ایک ہی حکمت عملی پر چلتے نظر آرہے ہیں۔ میاں نوازشریف کی تلخئ گفتار کے پیچھے روز اول ہی سے ایک این آر او کے سائے محسوس کیے جا رہے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشکل کے اس نئے سفر اور ساعتوں میں ناسازیِ طبع کے باعث بیگم کلثوم نواز، خاندان اور سیاست کی ڈولتی ناؤ کو سہارا دینے سے قاصر ہیں اور ان کی جگہ مریم نوازمیدان میں موجود ہیں۔ ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہ لگ رہا تھا کہ نواز شریف تلخ وتند جملوں سے دباؤ بڑھائیں گے ان کے معاون اور ہم نوا کے طور پر مریم نواز کا لہجہ اور دہن اسی طرح آگ دہکانے اور بھڑکانے والا جس طرح جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے وقت بیگم کلثوم نوازکا تھا اور ماضی کی اسی روایت کے تسلسل میں شہباز شریف ان شعلوں پر حسب روایت پانی ڈالیں گے اور یوں تلخ وشیریں کے امتزاج سے ایک مفاہمت وجود میں آئے گی۔
شہباز شریف کی مفاہمت پسندی اس وقت بھی انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی تھی، شہباز شریف آج بھی متبادل قیادت پر نظریں جمائے مفاہمت اور اعتدال کی باتیں کرتے ہیں مگر اعتدال اور مفاہمت اور فوجی حلقوں میں ’’سافٹ امیج‘‘ انہیں ماضی میں فائدہ نہیں پہنچا سکے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی وجہ کوئی اور نہیں ان کے گھرانے کی داخلی سیاست اور پیچ وخم رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی میاں نوازشریف کا گھرانہ انہیں بھی اپنے ساتھ جدہ لے گیا تھا حالاں کہ وہ چاہتے تو جنرل مشرف کے دل میں شہباز شریف کے لیے نرم گوشے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں مسلم لیگ ن کی قیادت سونپ کر فعال سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے پیچھے چھوڑ سکتے تھے۔ میاں نوازشریف نے اس مقصد کے لیے سیاسی طور پر ڈھلمل شخصیت چودھری نثار اور سخت گیر متلون مزاج جاوید ہاشمی کو باہم لڑنے بھڑنے کے لیے چھوڑ دیا اور یوں ایک گھرانے کے اندر کی سیاست اپنے رنگ دکھا گئی۔ جاوید ہاشمی ایک خط لکھ کر جیل جا پہنچے اور جہاں انہیں قید کرنے والے بھلا بیٹھے اور چودھری نثار علی خان اپنی عملیت پسندی پر مبنی سیاست کے جوہر دکھاتے رہے۔ اس مفاہمت کے بعد تلخ کہانی کے شیریں انجام کی طرح سب ہنسی خوشی رہنے لگے تھے۔ اس وقت جو مفاہمت ہوئی تھی اس کا ایک ظاہری سہولت کار سعودی عرب تھا مگر اس کا حقیقی سہولت کار امریکا تھا جس کے صدر بل کلنٹن نوازشریف کے ذاتی دوست سمجھے جاتے تھے۔ امریکا نے اس بغاوت کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اس کا ثبوت فوجی بغاوت کے بعد سی این این کے آگ اُگلتے تبصرے تھے۔ بارہ اکتوبر کی رات سی این این کا ایک تبصرہ تو یوں تھا کہ: ’’ایک جہادی فوج نے ایٹمی ملک کا کنٹرول سنبھال کر عالمی امن کے آگے سوالیہ نشان ڈال دیا ہے‘‘۔
اول تو ابھی این آر او کی کہانی شروع ہونے کا واضح ثبوت سامنے نہیں آیا۔ صرف ممکنات پر قیاس آرائیاں جاری ہیں اور مبصرین ابھی حالات واقعات کی کڑیاں ملانے اور جوتشی پیش گوئیاں کرنے کے مرحلے میں ہے۔ اگر کوئی این آر او ہوگا تو اس میں امریکا کا کردار نہ ہونے کے برابر ہونا یقینی تھا کیوں کہ امریکا بہت تیزی سے پاکستان پر اپنا اثر رسوخ کھورہا ہے۔ اب امریکا کی حمایت کسی سیاست دان کی اضافی خوبی، اہلیت اور مسائل کے حل کے لیے کھل جا سم سم کے بجائے انگریزی کے لفظ ’’ڈس کوالیفکیشن‘‘ سے قریب تر ہی ہے۔ اب ملک میں امریکا کے سیاسی اثاثے بوجھ بن رہے ہیں شاید نوازشریف کے بوجھ بن جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
این آر او کا غلغلہ اس وقت بلند ہوا جب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اچانک سعودی عرب سے آنے والے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جدہ روانہ ہوئے۔ کہا گیا کہ سعودی عرب میں وہ عمرے کی ادائیگی کے علاوہ اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ ایک کردار پر مبنی اس مختصر سی کہانی میں یکایک کئی کردار شامل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ کہانی کے مرکزی کردار نوازشریف بھی ایک مرحلے پر جدہ کہانی میں شامل ہوئے اور یوں ایک ڈیل کے دھندلے سے نقش بننا شروع ہوگئے۔ پاکستان اور سعودی عرب آڑے وقتوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کی مشکلات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کے اندرونی دفاع کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالتا رہا تو سعودی عرب پاکستان کی سیاسی اتھل پتھل کو درست کرنے میں اپنا اثر رسوخ اور حصہ ادار کرتا ہے۔ جب بھی پاکستان میں کوئی سیاسی بحران خطرات کے پیمانوں سے چھلکنے لگتا ہے سعودی سفارت کار سرگرم ہو کر بحران کی لہروں کو پیمانے کے اندر رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کی طرف سے میاں نوازشریف کا تختہ اُلٹنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے تھے ان میں بھی سعودی حکومت نے ایک فعال اور خاموش کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں شریف خاندان کو جدہ کے سرور پیلس کی انتظار گاہ میں بٹھادیا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے قیام اور میاں نواشریف کی سیاست میں جنرل ضیاء الحق ہی نہیں سعودی عرب کی خاصی سرمایہ کاری کا حصہ بھی ہے جو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ایک بڑی سیاسی قوت کا فروغ چاہتے تھے۔ اس لیے پاکستان کی داخلی سیاست سے ہٹ کر بھی سعودی عرب مسلم لیگ ن کی سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ یوں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مجموعی نتائج کے منفی برآمد ہونے کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے بیرونی دوست اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب کسی عوام میں ایک حلقہ اثر رکھنے والے سیاست دان کو غیر فطری انجام سے دوچار نہیں کیا جانا چاہیے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مچھر کو مارنے کے لیے توپ کے بجائے دھویں سے کام چل جائے تو اچھا ہے۔ میاں نوازشریف کے لیے سعودی عرب کی گرم جوشی کا وہ میعار گزشتہ ماہ وسال میں دیکھا نہیں گیا جو ماضی کا ہوا کر تا تھا۔ اس کی وجہ میاں نواز شریف کا قطر اور ترکی کے ساتھ بڑھتا ہوا تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے پاناما لیکس کے سارے باب میں سعودی عرب بہت خاموش اور غیر فعال دکھائی دیا۔ اس مشکل میں ایک قطری شہزادہ ہی ان کی مدد کو آیا مگر ایک خط کی صورت یہ کمک انہیں عدالتی میدان میں ظفر مند نہ بنا سکی۔ اس سرد مہری کے بعد اچانک شہباز شریف کے لیے گرم جوشی، پروٹوکول کے ساتھ سعودی عرب بلانا اور اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا اہتمام کرنا خاصا معنی خیز ہے۔ اس کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اشارتاً شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی بات کر چکے ہیں۔ گوکہ ابھی اس کی داخلی طور پر مزاحمت اور مخالفت بھی موجود ہے مگر نواز شریف خود اس بات کو جو پہلے ناممکن سمجھی جاتی تھی ممکنات کے خانے تک پہنچا چکے ہیں۔