نواز شریف کی دھمکی

536

نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سعودی عرب کے پراسرار دورے سے واپس آ کر بھی اپنی اس روش پر قائم ہیں جو انہوں نے جولائی 2017ء میں عدالتی فیصلے کے بعد سے اپنا رکھی ہے۔ سعودی عرب کے دورے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ میرا وہاں جانا کوئی عجوبہ نہیں، سعودی عرب پاکستان سے محبت کرنے والا دوست ملک ہے، معلوم نہیں یہاں کیوں بے پر کی اڑائی گئی، جنہوں نے ایسا کیا انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ ہماری دوستی اور تعلق پر ظلم کیا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے لیکن وہاں جانے کو عجوبہ اور بے پر کی اڑانے کا موقع خود میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی نے فراہم کیا۔ کیوں کہ نہ تو نواز شریف اور نہ ہی مسلم لیگ ن کی طرف سے ان کے دورہ سعودی عرب کے بارے میں کچھ بتایا گیا کہ وہ کیا کرنے گئے تھے اور اب بھی یہ نہیں معلوم کہ کیاکر آئے۔ اب وہ وزیر اعظم تو ہیں نہیں کہ ان کے دورے کو سرکاری سمجھا جائے چنانچہ افواہیں پھیلنا لازم تھا۔ وہ ایسے حالات میں گئے جب ان پر پاکستان میں مقدمات چل رہے ہیں اور انہیں نااہل، غیر صادق اور غیر امین قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا عجوبہ تو نہیں کہ وہ اپنے لیے سعودی حکمرانوں کی مدد مانگنے گئے تھے۔ سعودی عرب کسی فرد کا نہیں پاکستان کا دوست اور پاکستان سے محبت کرنے والا ملک ہے۔ یہ بھی سب کو یاد ہے کہ سعودی عرب ماضی میں بھی میاں نواز شریف کی مدد کے لیے آچکا ہے۔ اس بار سعودی مَلک سلمان بن عبدالعزیز نے بھی میاں نواز شریف کو شرف ملاقات عطا نہیں کیا۔ اس دورے پر اسرار کے پردے تو پڑے رہیں گے جب تک اصل بات سامنے نہ آجائے۔ بہرحال اتنا ضرور ہوا ہے کہ میاں نواز شریف الزام لگانے کے لیے تازہ دم ہو کر واپس آئے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو ان کی احتساب عدالت میں پیشی تھی جس کے بعد انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کی اور ایک پریس کانفرنس بھی کی۔ انہوں نے وہی پرانا راگ الاپا کہ مجھے کیوں نکالا جب کہ ’’ لاڈلے‘‘ کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ لاڈلے سے ان کی مراد عمران خان ہے۔ میاں صاحب کے خیر خواہوں نے ان کو یہ نہیں سمجھایا کہ وہ عمران خان پر اٹھتے بیٹھتے جو تنقید کرتے ہیں اس سے تحریک انصاف کے بارے میں ان کا خوف ظاہر ہوتا ہے۔ شاید یہ خوف بجابھی ہو کہ پنجاب میں ابھی تک پیپلز پارٹی تو نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکی لیکن تحریک انصاف خطرہ بن سکتی ہے۔ میاں صاحب عمران خان کو لاڈلا کہہ کر درحقیقت عدلیہ پر طنز فرما رہے ہیں لیکن عمران خان کے حمایتی جواب میں کہتے ہیں کہ ہاں، وہ عوام کا لاڈلا ہے۔ نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’’ مسلم لیگ ن کے عوامی مینڈیٹ کو روند کر مسترد شدہ عناصر کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔ اگر ن لیگ کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے تو پریشانی کی کوئی بات ہی نہیں۔ چند ماہ بعد مینڈیٹ سامنے آجائیگا۔ لیکن یہ مسترد شدہ عناصر کون سے ہیں ؟ اس کی وضاحت میاں صاحب نے نہیں کی۔ کیا یہ تحریک انصاف ہے یا پیپلز پارٹی ہے یا کوئی اور جماعت؟ ان عناصر کو کس نے مسترد کیا اور انہیں کون اقتدار میں لانے کی کوشش کررہا ہے۔ میاں صاحب نے بار بار کچھ قوتوں کا ذکر کیا ہے کہ ’’ یہ قوتیں کبھی کسی جماعت کا راستہ روک لیتی ہیں اور کبھی کسی جماعت کو عوام پر مسلط کردیتی ہیں، ماضی میں بھی انہی قوتوں نے عوامی مینڈیٹ اور عوامی رائے کو بدلنے کی کوشش کی‘‘۔ اب یہ سمجھنا تو مشکل نہیں کہ میاں صاحب کا اشارہ پاک فوج کی طرف ہے کیوں کہ اورکوئی قوت وہ کارنامے نہیں دکھا سکتی جن کا ذکر میاں صاحب نے کیا ہے۔ تو کیا ن لیگ کو بھی اسی قوت نے عوام پر مسلط کیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ قوت ناکام رہی۔ نوازشریف کی اس گفتگو میں حسب معمول عدلیہ اور قوتیں نشانہ بنی ہیں۔ اسی سے ان کے پرخلوص ساتھی میاں صاحب کو روکتے رہے ہیں لیکن میاں صاحب کو اب تک اس کے نقصان کا اندازہ نہیں ہوا یا اگر ہے تو وہ کسی سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جارحانہ رویہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ پھر انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ’’ اقتدار نہ ملا تو تمام پول کھول دوں گا ، اسی اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے قائدین کو جمع کر کے سارے راز فاش کردوں گا ،تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہوں، سب جانتا ہوں‘‘۔ میاں صاحب، اب ہمت کر کے تمام پول کھول ہی دیں، کب تک اپنے دل پر بوجھ رکھیں گے ۔ وہ اس سے پہلے بھی راز افشا کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں مگر اس سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔ ان کے خیال میں ان کے خلاف پس پردہ کارروائیاں ہو رہی ہیں جو نہ رکیں تو گزشتہ چار سال کے حقائق عوام کو بتادیں گے۔ کم ازکم اتنا ہی بتا دیں کہ ان کے خلاف پس پردہ کیا کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔ لیکن کیا یہ سارے انکشافات ان پر جولائی 2017ء کے بعد ہوئے ہیں جب ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو اس وقت ہی پول کھول دیتے لیکن شاید اس وقت انہیں خوف تھا۔ وہ ماضی میں صدر غلام اسحاق سے ٹکرا کر نتیجہ بھگت چکے تھے حالاں کہ دعویٰ یہ کیا تھا کہ ’’ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘۔ تین بار وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد اب تو ان کا خوف نکل جانا چاہیے۔ ان کے مذکورہ دعوے کو حزب اختلاف نے مذاق بنا لیا ہے اور سابق صدر آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کے پاس کوئی راز ہے تو ہمیں بھی بتا دیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راز ، راز ہی رہیں گے۔ مخالفین نے یہ بھی کہا ہے کہ راز منکشف کرنے چلے ہیں تو ابتدا جنرل ضیاء الحق (مرحوم) سے کریں۔