بے وقوفی تو کولمبس کی تھی

561

مظفر اعجاز
عام معلومات کا سوال ہے جس کے جواب میں امریکی لاٹری طرز پر کروڑوں ڈالر انعام میں ملیں گے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا نے سب سے پہلی بیوقوفی کیا کی تھی۔ امریکی تاریخ کے بے وقوف ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو امداد دے کر بے قوفی کی اب نہیں کریں گے۔ وہ پاکستان پر 33 یا 36 ارب ڈالر امداد کا احسان جتا رہے ہیں اور اسے بے وقوفی قرار دے رہے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ایسا صدر پہلی مرتبہ آیا ہے جو بیک وقت کئی سمتوں میں فائر کررہا ہے۔ اسے اپنے عوام سے بھی لڑنا پڑ رہا ہے اور دنیا میں اپنے دوستوں میں بھی کمی کررہا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا عندیہ بلکہ دھمکی دی ہے، اس پر ہمیں 60 کے عشرے میں امریکا کی پہلی بے وقوفی یاد آگئی جب پاکستان کو گندم دی گئی تھی اور اونٹوں کے گلے میں تھینک یو امریکا کی تختیاں لٹکائی گئی تھیں۔ اگر ٹرمپ نے اپنے اس بیوقوفانہ اعلان پر عمل کردیا تو پاکستان کو چاہیے کہ گدھوں کے گلے میں تھینک یو امریکا کی تختی لٹکا کر تصویریں امریکا بھجوادے۔ ویسے بھی ان کی پارٹی کا نشان گدھا ہی ہے اور ٹرمپ اپنی پارٹی کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس کا نشان ہی گدھا ہو وہ باتیں کیسی کرے گا؟َ ہمیں تو امریکی قوم پر حیرت ہے کہ وہ کس طرح اس کو برداشت کررہی ہے۔ اس موضوع پر لکھتے ہوئے ذرا اختیار کرنی پڑتی ہے کہ پاکستان میں بھی کیسے کیسے۔۔۔ حکمران گزر گئے اگر وہاں سے ان کے بارے میں کسی نے تبصرہ کردیا تو ہم کیا جواب دیں گے۔ اس لیے امریکی قوم خودہی اپنا گدھا سنبھالے ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔
بات تو یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ امریکا نے سب سے پہلی بے وقوفی کیا کی تھی۔ کوئی پہلی مرتبہ امداد کو بے وقوفی کہہ سکتا ہے کوئی جنرل ایوب کے تاریخی استقبال کو امریکا کی بے وقوفی کہہ سکتا ہے، بڈھ بیر میں امریکی اڈے کو بھی امریکی بے وقوفی کہنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ بے وقوف اتنے بے وقوف اور احمق ہیں یہ الفاظ ٹرمپ کے ہی ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کو احمق سمجھتے ہیں۔ جی اتنے احمق ہیں کہ دنیا کو بتایا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیار ہیں پھر بھی عراق پر قبضے کے باوجود ان ہتھیاروں کو پیش نہیں کیا۔ بش کے بعد دو مرتبہ اوباما صدر بنے لیکن کیا وہ بھی بے وقوف تھے کہ ایک مرتبہ بھی بش کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔ اب ٹرمپ تو ٹرمپ ہیں وہ خود ایسی دو دھاری تلوار ہیں کہ ان کا پتا نہیں کب کس طرح وار کردیں۔ لیکن انہوں نے بھی سابق صدور سے جھوٹے دعوؤں کا حساب نہیں لیا۔ شاید وہ احمق نہیں بننا چاہتے کیوں کہ امریکیوں سے جب بھی ان کے جھوٹ کا حساب لیا گیا وہ دوسرے کو احمق سمجھنے لگتے ہیں، جھوٹا کہتے ہیں، دغا باز کہتے ہیں جب کہ یہ تمام خصوصیات امریکی صدور میں بدرجہ اتم ہیں، اس کے بعد کسی کو احمق کہنے کی ضرورت نہیں۔ احمقوں کی خصوصیات اگر معلوم کرنی ہوں تو یہ بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، احمق اسی کو کہتے ہیں جو ایک غلط بات سنے اس کے بعد یہ بات غلط ثابت ہوجائے لیکن پھر بھی اسے ہی دہراتا رہے۔ تمام امریکی رہنما طالبان، افغان مجاہدین کے مختلف رہنماؤں بلکہ حقانی نیٹ ورک کے مبینہ سربراہ جلال الدین حقانی سے بھی ملتے رہے، ان کی تصاویر امریکا اور افغانستان میں ان مجاہدین کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہیں۔ داعش کی پیدائش بھی ان ہی کے ذریعے ہوئی لیکن یہ اسے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ دنیا کو احمق سمجھتے بھی ہیں اور بتا بھی رہے ہیں، دنیا ان کی چالوں کو سمجھنے کے باوجود کمزوری اور خوف کی وجہ سے ان کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہے۔ اب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردوں کو افغانستان میں ڈھونڈتے رہے لیکن وہ تو پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں میں ہیں۔ ٹرمپ کو پہلے بش اور اوباما سے عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کا حساب لینا چاہیے اگر وہ ہتھیار نہیں ملے تو ان صدور کو انسانیت کے قتل کے الزام میں سزا دی جانی چاہیے۔ یہ پاکستان کو دھمکیاں دے کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل امریکی حکام کو مسلسل ایک دشمن درکار ہے۔ کبھی عراق، کبھی القاعدہ، کبھی افغانستان، کبھی شمالی کوریا، کبھی ایران۔ جس زمانے میں القاعدہ اور اسامہ بن لادن امریکیوں کا ہدف تھے اس زمانے میں بھی ہم نے لکھا تھا کہ امریکیوں کو ہر وقت ایک مانسٹر درکار ہوتا ہے جیسے ہمارے ہند و پاک میں اللہ بابا یا بھٹو وغیرہ ہوتے تھے۔ اس سے بچوں کو ڈرایا جاتا تھا، امریکی حکمران اپنی قوم کو ان مانسٹرز سے ڈراتے رہتے ہیں تا کہ وہ ان سے ٹیکسوں کا حساب نہ لیں، ان کی دہشت گردیوں کا حساب نہ مانگیں بلکہ ہر وقت خوف کے عالم میں رہیں۔ اس خوف کی وجہ سے وہ اپنے حقوق بھی سلب کرالیتے ہیں۔ شہری آزادیوں سے بھی محروم رہنے کو تیار ہوجاتے ہیں انسانی حقوق کو بھی پامال ہوتا دیکھتے ہیں کیوں کہ احمقوں نے انہیں خوفزدہ کر رکھا ہے۔ ایک لطیفہ کچھ لوگوں نے گھڑ رکھا ہے یا واٹس اپ پر چلتا رہتا ہے کہ جب کولمبس امریکا کی تلاش کے سفر پر نکلا تو اس کی بیوی نے کچھ سوالات کیے تھے، کہاں جارہے ہو، واپسی کب تک ہوجائے گی، چھوٹے کو بھی ساتھ لے جاؤ۔۔۔ یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا کیا؟ اچھا واپسی میں ایک پاؤ دہی لے آنا۔ کولمبس بے وقوف نے بیوی کی بات نہ مانی اور امریکا دریافت کرلیا۔ اگر یہ احمق دہی لے کر گھر واپس آجاتا تو آج دنیا عذاب تو نہ بھگت رہی ہوتی۔ ساری بیوقوفی کولمبس کی ہے۔