فرانسسی زبان میں بے حد مشہور اصطلاح ہے، Deje Vu یعنی یہ منظر پہلے دیکھا ہوا ہے۔ آج کل ایران میں جو پُر تشدد مظاہرے ہورہے ہیں انہیں دیکھ کر 1953کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب منتخب وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکی سی آئی اے نے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے اشتراک سے سازش تیار کی تھی اور اس مقصد کے لیے ایران کے سیاست دانوں، سیکورٹی اور فوج کے اعلیٰ حکام کو رشوتیں دی تھیں اور مصدق کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانہ پر پروپیگنڈے کی مہم چلائی تھی۔ سی آئی اے نے ساٹھ سال بعد اعتراف کیا تھا کہ مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کی منظوری امریکی حکومت کی اعلیٰ سطح پر دی گئی تھی اشارہ وائٹ ہاؤس کی جانب تھا۔
پچھلے ایک ہفتہ کے دوران ایران کے مختلف شہروں میں پُرتشدد مظاہروں میں اکیس سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور پانچ سو افراد کو تہران میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران کے دشمنوں نے اسلامی جمہوریہ میں شورش برپا کرنے کے لیے رقوم، اسلحہ، سیاست اور انٹیلی جنس کے مختلف ذرائع استعمال کیے ہیں۔
ان مظاہروں کا سلسلہ جب 28دسمبر سے ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد سے شروع ہوا تھا تو اس وقت مبصرین کا تجزیہ تھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے سخت گیر موقف کے حامی آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا ہاتھ ہے۔ ابراہیم رئیسی نے گزشتہ مئی میں میانہ رو آیت اللہ روحانی کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا تھا اور ناکام رہے تھے۔ ابراہیم رئیسی امام رضا کے روضہ کے نگہبان ہیں۔ مشہد، ابرہیم رئیسی کا گڑھ مانا جاتا ہے جہاں صدارتی انتخاب میں انہیں صدر روحانی کے 6 لاکھ 88ہزار ووٹوں کے مقابلہ میں 9لاکھ 3ہزار ووٹ ملے تھے۔
نائب صدر اسحاق جہانگیری کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے دراصل صدر روحانی کی حکومت گرانے کے لیے شروع ہوئے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شروع میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا زیاد تر زور اقتصادی مشکلات پر تھا جو پچھلے کئی برسوں سے ایران کے خلاف امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کر گئی ہیں۔ افراط زر میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور بے روزگاروں کی تعداد 12فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ دیہی علاقوں میں خراب فصلوں اور گرانی کی وجہ سے عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہروں کا زور زیادہ تر تہران سے باہر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہا ہے۔
بیش تر مبصرین کو اس پر سخت تعجب ہوا ہے کہ شروع میں اقتصادی مشکلات کے بارے میں نعروں کے بعد مرگ بر خامنہ ای اور آمریت مردہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔ اس سے زیادہ یہ باعث حیرت بات تھی کہ کئی جگہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار سابق شاہ ایران رضا شاہ کے حق میں بھی نعرے لگائے گئے۔
صدر ٹرمپ نے بڑھ چڑھ کر ایران کی حکومت کے خلاف ان مظاہروں کی حمایت کی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان مظاہروں کے انتظار میں بیٹھے تھے اور ان مظاہروں کے شروع ہوتے ہی ان کی حمایت میں ٹیوٹر لے کے میدان میں آگئے۔ اس پر کسی کو تعجب نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹیوٹ میں کہا ہے کہ صدر اوباما سے جوہری سمجھوتا کرنے کے بعد بھی ایران کی حکومت ہر سطح پر ناکام ہوگئی ہے اور اب وقت ہے تبدیلی کا۔ اسی کے ساتھ امریکی وزارت خارجہ کے ایک عمل دار نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی حکومت ایران میں حکومت کے خلاف مظاہرین سے مختلف انداز کے روابط میں ہے جس کے پیش نظر خطرہ ہے کہ کہیں لیبیا کی طرح ایران میں فوجی مداخلت کی آگ نہ بھڑک اٹھے۔
یہ صورت حال بالکل ویسی ہی ہے جب 65سال پہلے، ایران میں منتخب وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹنے کے لیے امریکی حکومت نے مظاہرے بھڑکائے تھے۔ اس وقت اصل وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر مصدق نے ایران کے تیل کو قومی ملکیت میں لینے کا انقلابی اقدام کیا تھا۔ اس وقت ایران کے تیل پر برطانیہ کی انگلو ایرانین آئیل کمپنی کا قبضہ تھا اور اس کی آمدنی کا بڑا حصہ برطانوی تیل کمپنی کے خزانے میں جاتا تھا اور شاہ ایران کو خوش کرنے کے لیے تھوڑا بہت حصہ شاہی تجوری میں جاتا تھا۔ امریکا کو خوف تھا کہ کہیں مصدق کی حکومت سویت یونین سے نہ ہاتھ ملائے اور فوجی اہمیت کے اس علاقہ میں سویت یونین اپنا اثر نہ جما لے۔ امریکا اور برطانیہ نے جب دیکھا کہ مصدق کی سیاسی قوت کے سامنے شاہ ایران اور فوج بے بس ہے تو انہوں نے مصدق کا تختہ الٹنے کے لیے راست اقدام کا فیصلہ کیا اور شاہ ایران سے کہا کہ وہ مصدق کی برطرفی کے فرمان جاری کردیں، لیکن جب شاہی گارڈز کے سربراہ یہ فرمان لے کر وزیر اعظم کے دفتر گئے جہاں ڈاکٹر مصدق رہتے تھے تو مصدق کے حامیوں نے شاہی گارڈز کے سربراہ اور ان کی سپاہ کو حراست میں لے لیا۔ تہران کے عوام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے اور مصدق کی حمایت میں زبردست مظاہرے کیے۔ عوام کے جذبات اتنے شدید تھے کہ ان سے خائف ہو کر شاہ ایران، ملک سے فرار ہوگئے اور اٹلی میں پناہ لی۔
اس دوران امریکی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس نے فیصلہ کیا کہ اب جیسے تیسے مصدق کی حکومت کا تیا پانچا کرنا بہت ضروری ہے۔ ان دونوں اداروں نے ’’ایجکس‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا اور اس کے تحت 17 اور 18 اگست 1953 کو تہران کے بدنام زمانہ علاقہ شہر نو کے غنڈوں اور دوسرے شر پسندوں کو جمع کیا اور چند مذہبی رہنماؤں اور فوجی کی مدد سے ڈاکٹر مصدق کے گھر پر ہلہ بول دیا۔ کئی گھنٹے تک فائرنگ اور گولہ باری اور خونریز جھڑپوں کے بعد یہ حملہ آوار مصدق کے گھر میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے گھر کو نذر آتش کر دیا۔ ڈاکٹر مصدق اور ان کے ساتھیوں نے پڑوس کے مکان میں پناہ لی اور اپنی جان بچا لی۔ لیکن دوسرے روز انہوں نے اپنے آپ کو شاہ ایران کے مقرر کردہ نئے وزیر اعظم جنرل زاہدی کے حوالہ کردیا۔ ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خاتمہ کے چند روز بعد شاہ ایران ڈرتے ڈرتے وطن لوٹے اور تخت پر دوبارہ براجمان ہوگئے۔ ڈاکٹر مصدق کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں تین سال قید کی سزا دی گئی۔ سزا کے خاتمہ پر ڈاکٹر مصدق 4 مارچ 1967میں اپنے انتقال تک گھر میں نظر بند رہے۔
شاہ ایران نے تخت پر دوبارہ قبضہ کے بعد 25سال تک سخت آمرانہ انداز سے حکمرانی کی اور ایران کو مشرق وسطیٰ میں سیاسی اور فوجی اعتبار سے امریکا اور برطانیہ کے مفادات کا قلعہ بنا دیا۔ جو 1979 کے اسلامی انقلاب نے مسمار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے ایران اور امریکا کے درمیاں در پردہ جنگ جاری رہی ہے اور اب ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد کھلم کھلا محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے۔ ایران کی حکومت کے خلاف پُرتشدد مظاہروں نے ٹرمپ کے عزائم کی راہ کھول دی ہے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ٹرمپ امریکا میں تو اپنی حکومت کے خلاف مظاہروں کے خلاف ہیں لیکن ایران میں آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر روحانی کی حکومت گرانے کے لیے مظاہروں کی کھلم کھلا حمایت کر رہے ہیں۔ یہ ہے ٹرمپ کا دو مونہی چہرہ۔