سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ 

542

مفتی منیب الرحمٰن

شمالی فارس میں بْحَیرَۂ کیسپین کے جنوبی ساحل پرگیلان نامی قصبے میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ اپنے والدِکریم ابوصالح موسیٰ جنگی دوست کی طرف سے حَسَنی اور والدہ ماجدہ اْم الخیر اَم الجبار فاطمہ بنت سید عبداللہ صومعی کی طرف سے حسینی، یعنی نَجِییبْ الطَّرَفین سید ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ روایتی انداز سے ہٹ کر ایک مْصلحِ اعظم کی حیثیت سے آپ کی عظیم شخصیت کا تعارف آپ کے شِعار زندگی اور تعلیمات کے حوالے سے پیش کیا جائے۔ تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ نے حصولِ علم کے لیے آپ کو خود سے جدا کیا، طویل اور صبر آزما سفر کر کے آپ اْس عہد کے عظیم علمی مرکز بغداد تشریف لے گئے۔ آپ نے اپنے شیخ ابوسعید مْخَرِّمی کے مدرسے میں تمام دینی علوم کی تکمیل کی اور پھر اْسی مرکزِ علمی میں اپنے شیخ کے جانشین مقرر ہوئے۔ تقریباً تینتیس سال آپ نے حصولِ علم، درس وتدریس اور افتا میں صَرف کیے۔ آپ نے خود اپنے معروف قصیدے میں بتایا کہ رفعتوں کی منزل کا پہلا زینہ علم ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے علم حاصل کیا یہاں تک کہ میں قطبیت کے مرتبے پر فائز ہوا، میں نے استاذ الاساتذہ اور شیخ کامل کے حضور حاضر ہوکر سعادت کی منزلوں کو پایا۔ صائم الدہر اور قائم اللیل ہونے کی وجہ سے ان مردانِ باکمال کے چہرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ ہر ولی کسی نہ کسی مْقتدا کے نقشِ قدم پر گامزن رہتا ہے اور میں بَدرْ الکمال یعنی سید المرسلینؐ کے نقشِ قدم پر ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نزدیک دینی رفعتوں کے سارے راستے علم اور مردانِ باکمال کی صحبت سے ہوتے ہوئے گزرتے ہیں اور وہ پوری زندگی رسول اللہؐ کی سیرت کے نقوشِ قدم پر گامزن رہے۔ آپ نبی کریمؐ کے خلْقِ عظیم کا مظہر تھے، آپ کی کرامات بے شمار ہیں جو آپ کی سوانح کی کتابوں میں مذکور اور زبانِ زد عام ہیں، ہمارے واعظین کے خطابات کا مرکزی موضوع بھی یہی ہوتا ہے۔ جس طرح معجزہ نبی کی پہچان ہوتا ہے، اِسی طرح ایک لحاظ سے کرامت ولی کی پہچان ہے، لیکن عزیمت واستقامت کی جن منزلوں سے گزر کر ولی صاحبِ کرامت بنتا ہے، وہی ہمارے لیے رول ماڈل اور نمونۂ عمل ہیں۔ اکابرِ امت نے آپ کی سیرت کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔
شیخ حَرادہ فرماتے ہیں: ’’میری آنکھوں نے آپ سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق، اْولوالعزم، کریم النفس، رقیق القلب اور محبت وتعلقات کا پاس رکھنے والا نہیں دیکھا۔ آپ جلیل القدر، عالی مرتبت اور وسیع العلم ہونے کے باوجود اپنے چھوٹوں پر شفقت اور بزرگوں کی توقیر فرماتے، ہر ایک سے سلام میں پہل کرتے، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو اپنی ہم نشینی کا شرف بخشتے اور فقرا کے ساتھ تواضع اور انکسار سے پیش آتے۔ آپ کسی صاحب جاہ ومنصب کی تعظیم کے لیے قیام نہ فرماتے اور نہ ہی کسی وزیر اور بادشاہ کے آستانے پر حاضری دیتے۔‘‘ امام ابو عبداللہ محمد بن یوسف البرزالی لکھتے ہیں:
’’آپ مستجاب الدعوات تھے، ہمیشہ اللہ کے ذکر وفکرمیں مشغول رہتے اور کثرتِ ذکر سے آپ کی آنکھیں اشک بار ہوجاتیں۔ آپ انتہائی رقیق القلب، شگفتہ رو، کریم النفس، فراخ دست، ذی علم، بَلند اخلاق اور عالی نسب تھے۔ عبادات اور مجاہدے میں آپ سب سے رفیع الشان تھے اور آپ کا نورانی چہرہ ہمیشہ بشّاش اور تبسّْم آمیز نظر آتا۔‘‘
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ دنیا کو اپنا مطلوب اور محبوب بنانے کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس جہانِ فانی کے ساتھ مومن کا تعلق صرف بقدر حاجت ہونا چاہیے: ’’دولتِ دنیا ہاتھ اور جیب میں رکھنی جائز، کسی اچھی نیت سے اس کو جمع کرنا جائز، خبردار! مگر اْسے اپنے قلب پر اس طرح مسلّط کرنا کہ اْس کی محبت دل پر حاوی ہوجائے، ہرگز جائز نہیں ہے۔ اْسے درِ دل پر کھڑا کرنا جائز مگر خانۂ دل میں بسانا اور سجانا ناجائز ہے اوراس میں تیرے لیے کوئی عزت نہیں ہے۔‘‘
دنیاوی عشرتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے والے دنیا پرستوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بے شک دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے، لیکن تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’دنیا میں سے اپنا حصہ اس طرح مت لو کہ وہ بے نیاز بن کر بیٹھی ہے اور تم اْس کے سامنے نیاز مند بن کر کھڑے ہو، بلکہ اْس کو اس طرح برتو کہ وہ ایک بادشاہ کے دروازے پہ اپنے سر پر طباق لیے کھڑی ہے اور وہ اْس سے بے نیاز ہے۔ دنیا اْس کی خدمت گزار ہوتی ہے جو حق تبارک وتعالیٰ کے در پر عاجز بن کر کھڑا رہے، لیکن جو دنیا کے دروازے پر اْس کا طلب گار بن کر کھڑا ہوجائے، وہ اْس کو ذلیل وخوار کردیتی ہے۔ دنیا سے بے نیاز رہ کر اور اللہ کا نیاز مند بن کراسے برتو۔‘‘ انسان پر جن چیزوں کی محبت پرستش کی حد تک غالب آجاتی ہے، ان کی بابت فرماتے ہیں:
’’آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنی دولت و تجارت اور اپنے شہر کے حاکم پر، الغرض ہر وہ چیز جس سے تو آس لگا کر بیٹھے، ہر وہ شخص جس سے تو خوف ورجا کا تعلق قائم کرے اور ہر وہ ذات جسے تو اپنے نفع ونقصان کا مالک سمجھے، وہ تیرا معبود ہے۔ اگر تجھے یقین ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے اِذن واختیار اور حْکم سے ملتی ہیں تو پھر اللہ تیرا معبود ہے اور تو اللہ کا حقیقی بندہ ہے۔‘‘
جبائی راوی ہیں: دنیا سے بے رغبتی کی بابت آپ نے فرمایا: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ریاضت ومجاہدے کے زمانے کی طرح صحراؤں اور جنگلوں میں رہوں، نہ مخلوق مجھے دیکھے اور نہ میں اْس کو دیکھوں۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا نفع منظور ہے، اس لیے مجھے بندوں کے درمیان رہنے کا حکم ہے۔ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد یہودی اور مسیحی مسلمان ہوچکے ہیں، ایک لاکھ سے زائد مجرم اور سرکش تائب ہوکر اللہ کی بندگی اختیار کرچکے ہیں، پس یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔‘‘
احمد رضا قادری کے شیخ طریقت سید آلِ رسول مارہروی نے فرمایا تھا:
’’اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے کہ تم کیا لے کر آئے ہو، تو میں عرض کروں گا: ’’یا اللہ! میں احمد رضا کو لے کر آیا ہوں‘‘، اِسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے حضور یہ عرض کرسکتے ہیں: اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں اپنے مریدین اور تلامذہ علامہ ابن قدامہ، علامہ علی بن ہیتی اور سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردیؒ جیسی شخصیات لے کر آیا ہوں۔‘‘ اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جنہیں ان اکابر کا علمی اور روحانی مقام معلوم ہو۔
سیّد المرسلین امام الانبیاء بذاتِ خود سراپا معجزہ تھے، آپ کے نورانی بدن کا انگ انگ اور ہر بْنِ مْو معجزہ تھا، معراج النبیؐ سمیت آپ کے معجزات بے شمار ہیں۔ لیکن آپ کا عظیم معجزہ صحابہ کرامؓ کی صورت میں آپ کی تیار کی ہوئی رِجالِ کار کی وہ جماعت اور افرادی قوت تھی، جنہوں نے آگے چل کر اسلام کو دنیا کی وحدانی سپر پاور بنادیا اور اْس عہد کی دو سپر پاورز قیصر وکسریٰ اْن کے قدموں میں سرنگوں ہوگئیں۔ بلاشبہ عبدالقادر جیلانیؒ کی کرامات بے شمار ہیں، لیکن ان رِجالِ کار پر مشتمل انسانی اثاثہ آپ کی بہت بڑی کرامت ہے۔ آپ کی علمی وروحانی جلالت کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے سلاطینِ وقت قیمتی تحائف لے کر آتے تو آپ انہیں جھنجوڑتے ہوئے فرماتے:
’’تم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال اور اقتدار پر قابض ہوکر ظالم اور خائن بنے ہوئے ہو، بارِ الٰہا! ان منافقوں کو توبہ کی توفیق اور ہدایت نصیب فرمایا ان کی شوکت کو توڑ کر انہیں رسوا کردے۔ اے اللہ! ان ظالموں کی اصلاح فرما یا ان کا قَلع قمع کردے۔‘‘ جب سلاطینِ وقت آپ کے پاس سیم وزرسے بھری ہوئی تھیلیاں ہدیے کے طور پر پیش کرتے اور آپ اْن کو نچوڑتے، تو اْن سے خون رِستا، آپ فرماتے: ’’لوگوں کا خون چوستے ہو اور مجھے آکر ہدیہ دیتے ہو۔‘‘ توحید اور خدا خوفی اْن کی ذات وصفات کا جوہرِ کامل تھا، وہ اپنے صاحبزادے سید عبدالوہاب کو وصیت فرماتے ہیں:
’’ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو اور خدا کے سوا کسی کے خوف کو دل میں جگہ نہ دو۔ اپنے نفس کی مرغوبات اور ضروریات کو اللہ کے سپرد کردو، اْس کے سوا کسی سے آس نہ لگاؤ، صرف اْسی پر بھروسا کرو، سب کچھ اْسی سے مانگو، اللہ کے سوا کسی پر تکیہ نہ کرو، کیونکہ یہی دین کی اساس ہے، جو دل کا تعلق خالق کے ساتھ قائم کرلے، مخلوق اْس کے تابع ہوجاتی ہے۔‘‘