عمرانیات

519

مفتی منیب الرحمن

عُمرانیات سوشل سائنسز کو کہا جاتا ہے، مغرب میں نیچرل سائنسز کی طرح ان علوم کو بھی بے حد اہمیت دی جاتی ہے، ہم نے امریکا کے دورے کے دوران لاس اینجلس میں مسیحیت کی ایک مذہبی درس گاہ دیکھی، جہاں سوشل سائنسز کے مختلف شعبہ جات پر پی ایچ ڈی کرایا جارہا ہے۔ سوشل سائنسز سے مراد معاشرے کے احساسات، فطری رُجحانات، تعامل، اخلاقی ماحول، قوم کے سِفلی یا عُلوی جذبات، اَقدار اور ماحول کا مطالعہ کرنا ہے جو افراد، معاشرہ اور اقوام کا مزاج تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں چوں کہ ان شعبوں میں نہ روزگار کے مواقع ہیں، نہ علم برائے علم کی روایت ہے، نہ کسی کو اعلیٰ اقدار پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی فکر ہے، اس لیے یہ علوم قابلِ توجہ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو چوں کہ پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک پراپنی پالیسیاں مسلّط کرنی ہوتی ہیں، اس لیے یہ علوم اُن کی ضرورت ہیں۔
میں نے تفنُّنِ طبع کے طور پر پختون خوا میں پی ٹی آئی کے سربراہ جنابِ عمران خان کی حکمرانی کو ’’عِمرانیات‘‘ کا نام دیا ہے۔ 2017 کے اوائل میں، میں نے ایک دن ایبٹ آباد میں گزارا تھا اور اپنے مشاہدات پر مشتمل ’’پختون خوا میں تبدیلی کا ایک سرسری جائزہ‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات تحریر کیے تھے، بہت بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ہمدردوں نے بھی اس کا مطالعہ کیا اور مثبت تاثرات کا اظہار کیا۔ اب دسمبر 2017 کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر مجھے ایبٹ آباد میں دو تین دن گزارنے کا موقع ملا، میں نے خالی الذہن ہوکر معاشرے کے اہلِ نظر سے معلومات حاصل کیں، اُن کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
ضلع ہزارہ جب ڈویژن بنا تو ابتدا میں یہ تین اضلاع پر مشتمل تھا، بعد میں مختلف ادوار میں کوہستان، بٹگرام اور تورغر کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا، پی ٹی آئی حکومت نے قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر مشتمل ضلع کوہستان کو تین اضلاع میں منقسم کردیا ہے، ضلع لوئر کوہستان جناب عبدالحق ایم این اے اور کولائی پالس مولانا عصمت اللہ اور جناب زرگل کی فرمائش پر بنائے گئے ہیں، اب ہزارہ ڈویژن میں آٹھ اضلاع ہیں: ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر، اپر کوہستان، لوئر کوہستان اور کولائی پالَس۔ مجھے بتایا گیا کہ نئے ضلع کا انفرا اسٹرکچر بنانے پرکم از کم چھ ارب روپے اور مصارفِ جاریہ پرسالانہ ایک ارب روپے کا تخمینہ ہے، کیوں کہ ضلعی انتظامیہ کے تمام محکموں کے لیے دفاتر، رہائش گاہیں اور اوپر سے نیچے تک عملے کا تقرر ناگزیر ہوتا ہے، جب کہ بیش تر علاقہ پہاڑی ہونے کے سبب ان مقاصد کے لیے آسانی سے زمین بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ پس جب انتظامی اخراجات کو بڑھا دیا جائے گا، تو ترقیاتی اخراجات کے لیے وسائل کم دستیاب ہوں گے۔
ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ محلِّ نظر ہے، کیوں کہ اس کا آڈٹ آسان کام نہیں ہے، البتہ اگر اُن کی تعداد بیس پچیس کروڑ ہی مان لی جائے، تو بھی شجرکاری بجائے خود ایک قابلِ تحسین اقدام ہے۔ بعض علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کے سبب شجرکاری خطرات سے دوچار ہے، لیکن بارش کا نہ ہونا قدرتی امر ہے، اس میں پی ٹی آئی کی حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ صنوبر کے درخت کی شجرکاری کی گئی ہے، اس کی تین قسمیں ہیں: (۱)چیڑ: یہ درخت چار ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے، ایندھن کے سوا اس کا کوئی مصرف نہیں ہے، اب لوگوں نے گیس کے سلنڈر استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، لہٰذا ایندھن کے طور پر بھی اس کا استعمال محدود ہے۔ اب وہاں پکے مکانات بنانے کا رُجحان ہے، اس لیے یہ درخت کچے مکانات میں تعمیری مقاصد کے لیے شہتیر اور ستون کے طور پر بھی استعمال نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی حکومت نے درختوں کی کٹائی پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے اور مناسب حد تک اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ (۲) بیاڑ: یہ درخت چھ ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے اور یہ کچے مکانات میں شہتیر اور ستونوں کے کام آتا تھا، اب پکے مکانات کے رُجحان کی وجہ سے یہ مَصرف اختتام پزیر ہے۔ (۳) دیار: یہ درخت آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے، یہ لکڑی اگر پروسس ہوجائے تو پھر اسے کیڑا کم لگتا ہے اور یہ دروازوں، کھڑکیوں اور تعمیراتی مقاصد میں استعمال ہوتی ہے، لیکن یہ بہت مہنگی ہے، کم دستیاب ہے، اس لیے اب اس کے متبادل درآمد شدہ لکڑی یا المونیم استعمال ہورہا ہے۔ چیڑ کا درخت چالیس سال سے کم عمر میں بلوغت کو نہیں پہنچتا، یعنی اسے کامل درخت بننے کے لیے لمبی عمر چاہیے، ایک صاحب نے کہا: یہ دوسری نسل کا درخت ہے، یعنی ایک نسل اس کی شجر کاری کرے گی اور اس کے کامل ہونے تک دوسری نسل کا دور آجائے گا۔ اس کے کاٹنے پر پابندی کا ایک پہلو تو مثبت ہے کہ درخت تباہ نہیں ہوں گے اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس کے نیچے نہ گھاس اگتی ہے اور نہ ہی زمین میں فصل کی کاشت ہوتی ہے، یہ دونوں چیزیں مویشی بانی اور کاشت کاری کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت ہیں، لہٰذا اس کا سائنٹفک تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نقصان کا پہلو کم سے کم ہو، اگر وہاں کے ماحول کے مطابق کوئی دوسرا مفید درخت دستیاب ہو تو اس کا تجربہ کیا جانا چاہیے۔
ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں حاضری میں کافی بہتری آئی ہے،جنابِ عمران خان نوّے فی صد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اگر اسّی فی صد حاضری بھی حاصل ہوجائے تو ہم اسے کامیابی سے تعبیر کرسکتے ہیں، میں لکھ چکا ہوں کہ اساتذہ کا پابند کیا جانا ہی کافی نہیں ہے، معیاری تعلیم کے لیے اُن کی قابلیت اور اہلیت بھی لازمی ہے،جسے یقینی بنانا آسان نہیں ہے، کیوں کہ پرانا عملہ Status quo کا حامی ہوتا ہے اور مزاحمت کرتا ہے، الغرض نیک نیتی کے باوجود بہترین نتائج حاصل کرنا کافی دشوار ہے، اس میں بھی پی ٹی آئی حکومت پر پوری ذمے داری عائد کرنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز کے تجربے کو ایک اہم اقدام تو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بہت کامیاب ثابت نہیں ہوا، اس کے بھی مثبت اور منفی پہلو موجود ہیں اور ان پر گفتگو کے لیے تفصیلی کالم درکار ہے۔
ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بڑے پیمانے پر بھرتی ہوئی ہے، ایسا بھی ہے کہ ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پندرہ ڈاکٹر تھے اور اس کی مطلوبہ تعداد پینتالیس تھی، اسے کافی حد تک پُر کیا گیا ہے، اس سے نوجوان ڈاکٹروں کو روزگار کے مواقع ملے ہیں، دشوار علاقوں میں بھی کافی حد تک ڈاکٹروں کی حاضری کو چیک کیا جارہا ہے۔ اسکولوں میں بھی سائنس ٹیچرز کی عرصے سے خالی اسامیاں پُرکی گئی ہیں، حاضری کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے یقیناًتعلیم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرانے اساتذہ کو پرکشش پیکج دے کر ریٹائر کرے اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دے، بہرحال اس اصلاحی کاوش کی داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔
رشوت کے خاتمے کے دعوے پر میں نے جس صاحبِ نظر سے بھی دریافت کیا، تقریباً سب کا جواب ایک ’’خندۂ استہزاء‘‘ سے بڑھ کر کچھ نہ تھا، بتایا گیا کہ جب رشوت لینا پُر خطر ہوجائے تو اس کا ریٹ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس میں ہمارے معاشرے کی مجموعی اخلاقی ساخت کا بھی بہت بڑا دخل ہے، اس شعبے میں نیک نیتی کے ساتھ کاوش کی جاسکتی ہے، مثبت نتائج کے حصول کے لیے تعلیم وتربیت، مجموعی نظام کی بہتری اور سیاست دانوں کی اپنی اخلاقی برتری کا بہت بڑا دخل ہے۔ پولیس کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ پختون خوا کی پولیس پہلے بھی دوسرے صوبوں سے مختلف تھی، بات بات پر گالی گلوچ اور تذلیل وہاں کا معاشرہ آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
جہاں تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کا تعلق ہے، اس کے کوئی آثار وہاں دستیاب نہیں ہیں، میں نے پہلے بھی اس کی نشاندہی کی تھی، جب میں ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہوا تو پی ٹی آئی کے ہمدرد جنابِ علی اصغرکا ایک سائن بورڈ دیکھا کہ پرویز خٹک کے ضلع نوشہرہ کا ترقیاتی بجٹ ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع کے برابر ہے۔ سو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی ہمیشہ کی طرح بیش تر بجٹ پشاور ویلی کے اضلاع پر صَرف ہوا ہے، لیکن پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست کا انہیں فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے پورا عرصہ وفاق اور پنجاب کو مسلسل دباؤ میں رکھا اور اُن کی اپنی جوابدہی کی نوبت نہیں آئی۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ایبٹ آباد بائی پاس کا وعدہ کیا تھا اور عمران خان نے ایک ملاقات میں مجھ سے اس وعدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن اُس پر سرے سے کام کا آغاز ہی نہیں ہوا، ایبٹ آبادکی حدود میں داخل ہونے سے لے کر مانسہرہ کی حدود سے نکلنے تک تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ بعض اوقات تین سے چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے اوقات اور ایندھن کا کتنا ضیاع ہے اور اس سے لوگوں کے مزاج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس وفاق کے منصوبے ہزارہ ایکسپریس وے پر بڑی تیزی سے عمل ہوا اور اس کے پہلے فیز کا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ہفتے افتتاح کیا ہے۔
پرویز خٹک بظاہر بھولے بھالے لگتے ہیں، لیکن گھاگ سیاست دان ہیں، انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ایک اقلیتی حکومت کا دورانیہ کامیابی سے پورا کر رہے ہیں، ان کی اپنی پارٹی میں بھی مزاحمت جاری رہی، لیکن وہ جنابِ عمران خان کو ہمیشہ شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے، ہر باراُن کے منتخب ارکان تلملا کر رہ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اُن کی اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت رہی ہے، اسی لیے انہوں نے اپنے باغی ارکان کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ اب انہوں نے ائمّ�ۂ مساجد کو فی کس دس ہزار روپے تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے، اگر اس پر کامیابی سے عمل درآمد ہوتا ہے، تو اس سے جے یو آئی کی سیاست پر مستقبلِ قریب یا بعید میں یقیناًاثر مرتّب ہوگا اور پاکستان میں پہلی بار ممبر اور مائک بتدریج حکومت کے کنٹرول میں آجائے گا، جب کہ خیبر پختون خوا میں ممبر اور مائک ہمیشہ حکومت کے کنٹرول سے آزاد رہا ہے اور جے یو آئی کی انتخابی کامیابیوں میں اس کا بڑا دخل رہا ہے۔