سی پیک: طویل مدتی منصوبہ

402

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

ہال ہی میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات جناب احسن اقبال نے چینی سفیر یاؤ چنگ کی موجودگی میں ساتویں جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کی میٹنگ میں زبانِ زد عام منصوبہ سی پیک کے طویل مدتی منصوبہ بندی کو پاکستانی عوام کے سامنے پیش کردیا ہے، جسے 21 نومبر 2017ء کو چینی اور پاکستانی حکومت نے منظور کرلیا تھا اور اس دستاویز پر چین کی طرف سے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن کے جناب میووانگ اور پاکستان کی طرف سے منصوبہ بندی ترقی اور ریفارمز کے وفاقی وزیر احسن اقبال کے دستخط موجود ہیں۔ اس طویل مدتی منصوبے پر کئی ماہ سے دو اطراف سے غور و فکر ہورہا تھا۔ جس کے بعد پچھلے ماہ اسے منظور کیا گیا اور یہ دستاویز انگریزی اور چینی دونوں زبانوں میں تیار کی گئی ہے۔
سی پیک منصوبے کی پاکستان میں پہلی بار بازگشت اپریل 2015ء میں سنی گئی جب چینی صدر ذی پنگ نے پاکستان کے دورے کے دوران 46 ارب ڈالر کے 51 منصوبوں کی یادداشتوں پر دستخط کیے، جن میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے لیے اور 11 ارب ڈالر انفرااسٹرکچر کے لیے طے کیے گئے تھے اور اس کے بعد پورے ملک میں تقریروں، تجزیوں، بیانات اور الزامات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں کے پی کے اور بلوچستان کی جانب سے وفاقی حکومت پر الزامات کی گولہ بار کی گئی۔ مثلاً بی این پی نے سال 2015ء میں ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور یہ کہا گیا کہ اس منصوبے سے بلوچستان کے بلوچ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے اور گوادر کے ماہی گیر بے روزگار ہوجائیں گے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے نے مطالبہ کیا کہ ہمیں ایک سڑک کے بجائے پورے منصوبے میں شامل کیا جائے اور مشرقی روٹ کے بجائے پہلے مغربی روٹ کو مکمل کیا جائے، اس سلسلے میں کے پی کے اسمبلی کے اسپیکر نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی کہ 28 مئی 2016ء کی کل جماعتی کانفرنس کے مطابق مغربی روٹ پر مختص فنڈ کو مشرقی روٹ پر استعمال ہونے سے روکا جائے۔ وفاقی حکومت نے اس صورت حال پر ہوش کے ناخن لیتے ہوئے تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا، تمام وزرائے اعلیٰ کو اس منصوبے میں شریک کیا اور ہر صوبائی وزیر اعلیٰ کی تجاویز کو اس میں شامل کیا۔ اس طرح سی پیک کا تخمینہ 60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا مگر اس کے نتیجے میں پورے ملک میں بڑی حد تک ہم آہنگی اور اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے لیکن ابھی بھی کچھ اعتراضات اور تحفظات پائے جاتے ہیں جن کا ختم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
سی پیک (CPEC) کی طویل مدتی پروگرام دستاویز میں تین مرحلے ہیں ایک مختصر مدتی مرحلہ جو 2020ء میں مکمل ہوگا، دوسرا درمیانی مدت کا مرحلہ جو 2025ء میں اور تیسرا طویل مدتی جو 2030ء میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے ضمن میں اس دستاویز میں 6 ترجیحات سامنے رکھی گئی ہیں جن میں ٹرانسپورٹ کے ذرائع میں بہتری، ذرائع معلومات میں اصلاحات، توانائی کی پیداوار میں اضافہ، تجارت و صنعت میں ترقی اور زراعت و سیاحت میں بہتری شامل ہیں۔ ٹرانسپورٹ میں بہتری کے سلسلے میں جو امور اس منصوبے میں شامل ہیں اُن میں سڑکیں، ہائی ویز جن میں مختلف شہروں کو ملانا بھی شامل ہے، مثلاً سکھر سے گوادر پورٹ اور اسی طرح ڈی آئی خان کوئٹہ سے گوادر۔ سڑکوں کے علاوہ ریلوے میں وسعت اور بہتری بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ کے نام سے جدید ائرپورٹ بھی اس میں شامل ہے۔
ذرائع معلومات کے اضافے میں کراس بارڈر آپٹک فائبر کی تنصیب اور آئی انڈسٹری اور ڈیٹا بیس کی صلاحیت میں اضافہ پیش نظر ہے۔ توانائی کی پیداوار میں اضافے کے ضمن میں 2030ء تک 25000 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنا اس منصوبے میں شامل ہے اور اس سلسلے میں ہائیڈرو پاور، تھرمل پاور، ونڈ اور سولر پاور جیسے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کو استعمال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مقامی کوئلہ کو مختلف پیداواری منصوبوں میں استعمال کرنے کے لیے کئی متبادل منصوبے اس میں شامل کیے گئے ہیں۔ صنعت و تجارت میں بہتری، ترقی و اصلاحات کے سلسلے میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹ سب سے اہم ہیں، اس کے علاوہ کیمیکل، انجینئرنگ اشیا، آئرن، اسٹیل، تعمیراتی سامان اور لائٹ مینو فیکچرنگ بھی اس میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں تمام صوبوں میں خصوصی اکنامک زون بنائے جائیں گے، اُن میں بجلی، پانی، گیس وغیرہ کی فراہمی صوبوں کے ذمے ہوگی جب کہ صنعتیں اور کارخانے پاکستانی اور چینی نجی شعبے کی مدد سے لگائے جائیں گے۔ لیکن اس کا دارومدار صوبوں کی کارکردگی پر ہے، اس سے پہلے بھی کم از کم صوبہ سندھ میں اس طرح کے صنعتی زون بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکے بلکہ بعض تو بھاری اخراجات کے بعد بند ہوگئے، وجہ اس کی یہ تھی کہ کارخانوں اور فیکٹریوں کو جن سروسز کی ضرورت تھی وہ سندھ کی صوبائی حکومت پانچ اور دس سال بعد بھی فراہم نہ کرسکی۔
زراعت و سیاحت بھی اس طویل مدتی منصوبے میں شامل ہیں، زراعت میں فصلوں کا بیماریوں سے بچاؤ، پانی کی فراہمی، تیار شدہ فصلوں کی اسٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن بھی ترجیحات میں شامل ہے۔ منصوبہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اصل معاملہ اس پر عملدرآمد کا ہے اور ملکی بنیاد پر جہاں وفاق اور صوبوں میں اعتماد کی فضا نہ ہو، اعتماد کی فضا قائم رکھنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے، وفاقی حکومت اگر نیک نیتی اور انصاف کے ساتھ تمام صوبوں کے ساتھ مخلصانہ رویہ اپنائے گی تو حقیقت میں سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔